What is culture and how it is influenced by various factors? Cambridge Anthropology museum is perhaps the best place to reflect on this question
میں نے کیاری میں کھلے سرخ گلابوں کو دیکھا اور پھر زن کو ۔ وہ میوزیم کے دروازے کے سامنے کھڑے بچوں اور ان کی کلاس ٹیچر کا گروپ فوٹو اتارنے میں مصروف تھی۔ بچوں میں یوں کھل مل جانا اس کے لیے ہمیشہ سے آسان رہا ہے۔ خود اس کی اپنی مسکراہٹ بچوں جیسی جو ہے۔ فوٹو اور رسمی شکریہ کی آوازیں مدھم پڑیں تو ہم کیمبرج انتھروپولوجی میوزیم میں داخل ہوے۔ اٹھارہ سو چوراسی سے قایم یہ میوزیم دنیا بھر کی قدیم انسانی ثقافت کے نمایندہ نوادرات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔ کشادہ مرکزی ہال کا فرش لکڑی کا تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مختلف کیبنٹوں میں دنیا بھر سے جمع شدہ نوادرات سجے تھے۔ بہت سے بڑے سائز کے نوادرات بجاے خود بڑی دلکشی سے سجائے گیے تھے۔ میں نے پروف سے پوچھا۔ ثقافت میں کیا کچھ شامل ہے؟ بولے. ثقافت سے مراد ہے کسی انسانی گروہ کا اجتماعی رویہ۔ یعنی اس کی غذا ، زبان ، لباس ، سیر و تفریح اور فنون لطیفہ سے متعلق اختیار کیے ہوے طریقے ، صنعتی اوزار ، جنگی ہتھیار اور روز مرہ کے معمولات وغیرہ بھی۔ اس معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے خیالات، عقائد ، اقدار، اور حالات سے نمٹنے کے لیے ان کا نفسیاتی رویہ اور طرز عمل بھی ثقافت ہی کا حصّہ ہیں . قدیم زمانے میں ثقافت ارد گرد کے قدرتی ماحول اور موسم سے مفاہمت کے نتیجے میں شروع ہوی۔ اس کی شکل و صورت میں نسل در نسل وراثت کے ذریعے سے آبا واجداد کے رہن سہن کے طریقے شامل ہوتے گئے . پھر دوسرے انسانی گروہوں کی ثقافت کے اثرات بھی شامل ہوے . جہاں تک جانوروں کا تعلق ہے قدرتی ارتقا ہی ان کی ثقافتی ترقی کی واحد صورت ہے. جبکہ ہم انسان نہ صرف حیاتیاتی ارتقا بلکہ اس سے کہیں زیادہ اپنی سوچ ، مشاہدے اور مکالمے کے نتیجے میں ہونے والی زہنی ترقی کے زریعے اپنی ثقافت تشکیل دیتے ہیں . پھر ہم سب کسی اونچے درخت کے تنے جیسے بے حد مہارت سے تراشے لکڑی کا مجسمے کے سامنے جا کھڑے ہوے۔ یہ جنوبی امریکہ کے قدیم قبائل کی روحانی عقیدت کا فنکارانہ اظہار تھا۔ گہری کتھءی رنگت میں ابھارے گئے نقش و نگارِ دیکھنے والے کو کسی اجنبی دنیا میں لے جاتے تھے۔ اوپری منزل پر جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھنے لگے تو جیک نے کہا . ثقافتیں ایک دوسرے پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں؟ پروف بولے . انسانی گروہوں کا ٹکراؤ یا مفاہمانہ میل جول دونوں ہی اپنا اثر ڈالتے ہیں . بیشتر صورتوں میں جسے ہم اپنی ثقافت سمجھتے ہیں وہ ماضی میں دیگر حملہ آوروں نے ہمارے آباؤ اجداد پر مسلط کی ہوتی ہے . ضروری نہیں کہ یہ ہمیشہ کوئی منفی بات ہو ۔ یہ ملاپ ہی زندہ اور متحرک ثقافت کی نئی صورت کو جنم دیتا ہے ۔ موسیقی ، رہن سہن، شاعری مصوری اور خاص طور پر زبان اس ملاپ کا فائدہ اٹھاتے ہیں. پھر کوئی مزید ایک گھنٹہ ہم نے میوزیم کی سیر کی. ھماری دلچسپی تو ایشیا اور افریقہ سے جمع شدہ ثقافتی نوادرات تھے۔ لیکن کیپٹن کک کے بحرالکاہل کی مہمات کے دوران جمع کیے نوادرات اور چارلس ڈارون کا سیکشن بھی بہت دلچسپ لگا. زن نے چلتے چلتے پوچھا . اور ثقافتی ترقی کے اصول ؟ کہنے لگے . ثقافتی ارتقاء ایک متحرک عمل ہے۔ انسانی علم، مہارت، سوچ اور ارادوں کے ساتھ یہ بھی آگے بڑھتا ہے. انسانی تاریخ میں بظاہر تو ہم نے قدیم بے حد سادہ سی ثقافت سے موجودہ ترقی یافتہ دور تک سیدھی لائن میں سفر کیا ہے۔ کسی زمانے میں بارود کی توڑے والی بندوق مہلک ترین ہتھیار تھی ۔آج بارودی ھتھیار کس قدر پیچیدہ ہیں تمہیں معلوم ہی ہے۔ لیکن پھر ایمیزون کے گھنے جنگلوں اور پاپاؤ نیو گنی کی باقی اور موجود قدیم ثقافتیں بھی تو ہیں . گویا جواب اتنا سیدھا اور آسان نہیں . سیکھنے کی بات ہے درست ثقافت کی سمت بڑھنا، جس طرح قدیم مصری قوم کی کئی نسلوں کی زندگی اہرام تعمیر کرنے میں بسر اور ضایع ہو گئی . کہیں ایسا تو نہیں کے آج ہم انسان مختلف نوعیت کے فرضی اہرام تعمیر کرنے میں اپنی پوری زندگی وقف اور ضایع کر رہے ہوں ۔ ہٹلر کی قیادت میں نسلی برتری کا جھوٹا اہرام تعمیر تو نہ ہو سکا لیکن ایک پوری بے گناہ نسل اس کی بھینٹ چڑھ گئی…. جاری ہے