Skip to content
Home » Blog » Khooni Khail خونی کھیل، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسیواں انشا Gladiators, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 87

Khooni Khail خونی کھیل، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسیواں انشا Gladiators, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 87

Rulers love to keep public involved in non issues since ancient times. Romans did the same by staging deadly combats of gladiators and wild animal fights for public viewing

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

خونی کھیل، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسیواں انشا، شارق علی
آخری اوور اور دس رن درکار، پوری قوم ٹی وی سے جڑی ہوئی. اسٹوڈیو  ماہرین عروج و زوال کے گر بتانے اور عوام بغیر سایلینسر سواریوں میں فتح کا جشن، آتش بازی، بھنگڑے اور مٹھائی تقسیم کی تیاری میں مصروف . کون یقین کرتا کہ پانی، بجلی، تعلیم، صفائی، روزگار، صحت حتی کہ جان و مال کی حفاظت کچھ بھی مہیا نہیں ان لوگوں کو. انکل پٹیل خوش نہیں تھے آج. دادا جی بولے. عوام کو کھیل میں لگا کر مسائل سے دور اور اقتدار محفوظ رکھنا قدیم روم کی روایت ہے. دائرے نما خونی کھیل کے امفی تھیٹر ہر شہر میں ہوتے تھے رومن عروج میں. داخلہ اور کھانا مفت. روم کا مرکزی امفی تھیٹر کلوزیم دیکھنے کی چیز ہے. آپ تو گئے ہیں وہاں. کیسا ہے وہ؟ میں نے پوچھا. بولے . چھ ایکڑ پر پھیلا اور چھ سو پچاس فٹ اونچا شاندار امفی تھیٹر ٨٠ ص ع  میں رومن راج کے عروج میں سات ہزار یہودی غلاموں نے نو سال کی محنت سے تعمیر کیا تھا. پچاس ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی وہاں. چٹانی پتھروں، اینٹوں اور گارے سے تعمیر کی گئی اس قدیم عمارت کو نویں صدی عیسویں کے زلزلے سے نقصان پہنچا تھا. طرز تعمیر محرابی تاکہ وزن کم اور مضبوطی زیادہ ہو. داخلے کے لئے چھیتر دروازے اور فرش لکڑی اور ریت سے بنایا گیا تھا. تماشائیوں کے لئے چار منزلیں اور ان تک پہنچتے زینے جن پر نگران پہریدار موجود . اوپر دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لئے بادبانوں جیسے پردوں کا انتظام. انکل نے کہا. بیٹھنے کی ترتیب ان کے طبقاتی نظام کے مطابق تھی. حکمران شاہی باکس میں اور سینیٹرز اعلا نشستوں پر. پھر سرکاری افسر اور معززین شہر. دور بلندی پر عام شہری اور معمولی سپاہی. آخر میں غلام اور عورتیں . تہ خانے میں کوٹھڑیاں اور پیچیدہ گلیاں جہاں غلام جنگجو اور خونخوار جانور رکھے اور پیچیدہ گلیوں سے گزار کر اسٹیج پر لاے جاتے تھے. کھیل کونسا ہوتا تھا وہاں؟ میں نے پوچھا. یانی آپا بولیں. حکمرانوں کا محبوب خونی کھیل. کبھی غلام ایک دوسرے کے اور کبھی خونخوار جنگلی جانوروں مثلاً شیر، چیتے اور مگر مچھ کے آمنے سامنے ہوتے. بیشتر مقابلے کسی ایک فریق کی موت تک جاری رہتے. جتنا سنگ دل کھیل اتنا ہی تماشائیوں کا جوش و خروش. مقابلے سے پہلے جانوروں کو بھوکا رکھا جاتا، انھیں زخمی کر کے طیش دلایا جاتا تاکہ مقابلہ زیادہ خون خوار ہو. کچھ گلیڈی ایٹرس  عوام میں بے حد مقبول تھے. زندہ رہنے کے لئے انھیں ساتھی غلاموں کی جان لینا پڑتی. بعض  اوقات زخمی مگر عوام کے پسندیدہ گلیڈی ایٹرس تو کھیل روک کر مزید مقابلوں کے لئے بچا لیا جاتا. کتنے ظالم لوگ تھے وہ؟ میں نے غصّے سے کہا. یانی آپا بولیں. اقتدار کی پائندگی کے لئے غلام طبقوں کے خونی کھیل کو تو ہر دور میں جاری رکھا جاتا ہے ممدو. بس کردار اور مقام تبدیل ہو جاتے ہیں……جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *