Skip to content
Home » Blog » سفر بخیر ، پانچواں انشا، امریگو کہانی، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

سفر بخیر ، پانچواں انشا، امریگو کہانی، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

  • by

سفر بخیر ، پانچواں انشا، امریگو کہانی، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

بوینگ طیارہ مسلسل محو پرواز تھا۔ سات گھنٹے کا عرصہ کچھ جاگتے کچھ اونگھتے گذرا ۔ آن بورڈ انٹرٹینمنٹ کی فیسیلٹی نے بہت ساتھ دیا۔ اس عرصہ میں دو فلمیں کچھ ادھوری کچھ مکمل سوتے جاگتے دیکھیں۔ ایک تھی ہاتھی میرا ساتھی اور دوسری انگلش میڈیم ۔ کھانوں کی طرح فلموں میں بھی میری پہلی ترجیح ذرا دیسی نوعیت کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کرسٹوفر کولمبس کا سفر اس قدر آرام دہ نہ رہا ہو گا۔ کہتے ہیں ایشیا کے نءے راستے کی تلاش کی مہم میں کولمبس کو سرکاری طور پر صرف دو جہاز دیے گئے تھے۔ بلکہ یہ دو جہاز بھی سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ اس علاقے کے لوگوں سے کسی پچھلے جرم کی سزا میں جرمانے کی صورت میں دلوائے گءے تھے جہاں سے مہم کی روانگی کا سفر شروع ہونا تھا۔ ان جہازوں میں رکھنے کے لیے اسلحہ اور کھانے پینے کا سامان بھی بہت کم تھا۔ پھر عملہ بھی ناکافی فراہم کیا گیا۔ چند چھوٹی توپیں اور گنتی کی کچھ بندوقیں ساتھ تھیں۔ اس بے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے کولمبس نے خود بھاگ دوڑ کی اور ایک تیسرا جہاز سانتا ماریا قرض پر حاصل کر لیا ۔ اب جہاز تین ہوگئے۔ کولمبس نے جب اپنے تاریخی سفر کا آغاز کیا تو اسے ساحل پر ملکہ اور بادشاہ نے صلیب کے سائے میں چرچ کی گھنٹیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ وہ اپنے اندازے کے مطابق ایشیائی ساحلوں کی طرف جا رہا تھا. اس کے خیال میں اس بحری راستے سے جاپان تک کا سفر تقریبا ساڑھے چار ہزار میل کا ہونا چاہیے تھا۔ ان بورڈ انٹرٹینمنٹ فیسلٹی میں اچانک سے وقفہ ایا اور کیپٹن کا اعلان شروع ہوا۔ ہم کچھ ہی دیر بعد میری لینڈ کے ڈلس ایئرپورٹ پر اترنے والے تھے۔ جہاز نے بلندی کم کرتے ہوئے دھیرے دھیرے بالٹی مور کے سرسبز و شاداب مضافات کے اوپر چکر لگا کر ائیر پورٹ پر اترنے کے لئے اپنی تیاری مکمل کی اور پائلٹ نے کمال مہارت کے ساتھ جہاز کے پہیوں کو رن وے سے ملایا. ہمارا جہاز ٹیکسی کرتا ہوا شاندار ائیرپورٹ کے متعلقہ گیٹ پر جا کھڑا ہوا۔ سارے مسافر اپنے دستی سامان سمیت راہداریوں سے گزر کر پاسپورٹ کنٹرول کی ڈیسکوں کے سامنے اپنے اپنے پاسپورٹ اور قومیت کے اعتبار سے متعلقہ قطاروں میں جا کھڑے ہوے۔ کولمبس خود تو اطالوی تھا جب کہ جہاز کا باقی سارا عملہ سپین سے تعلق رکھتا تھا۔ جب کئی ہفتوں کے طویل سفر کے باوجود خشکی دکھای نہ دی تو یہ قومیتی فرق تناؤ اختیار کر گیا تھا ۔ کچھ لوگوں نے واپس لوٹ جانے پر اصرار کیا۔ باغیوں نے تو اس اطالوی کو قتل کرنے تک کا ارادہ کر لیا۔ ان کے خیال میں اس کے مرنے سے باقی تمام اسپینش کی جان تو بچ ہی سکتی تھی۔ کولمبس کے لیے حالات دن بدن خطرناک ہوتے چلے جا رہے تھے۔اس نے انہیں انعام کا لالچ دے کر کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیابی نہ ملی۔ سامنے موت نظر آرہی ہو تو ایسے میں انعام اکرام کے بارے میں کون سوچتا ہے۔ موت کے اسی خوف کے درمیان جہاز کے عملے میں سے کسی ایک نے اچانک سے پرندوں کے چہکنے کی آواز سنی ۔ پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے وہ آسمان میں پرندوں کو دیکھنے لگا۔ سارا عملہ اس کے ساتھ مل کر اسمان کو گھورنے لگا۔ یہ مہاجر پرندوں کے غول کے غول شمالی امریکہ سے ہجرت کرکے سخت سردیاں گزارنے ویسٹ انڈیز کے جزیروں کی طرف جا رہے تھے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ جلد ہی وہ زمین تک جا پہنچیں گے ۔ لیکن مزید دو روز تک سفر کے باوجود زمین دکھائی نہیں دی۔ پرندوں کا نظر آنا ہرگز فریب نظر نہیں تھا کیونکہ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہے تھے پرندوں کا شور بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ یہی شور ان کی امید بن چکا تھا. وہ ہر قیمت پر جلد از جلد خشک زمین دیکھنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

Please subscribe to my channel
https://www.youtube.com/user/shariqwise/featured

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *