Skip to content
Home » Blog » روشنی ، چھٹا انشا، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

روشنی ، چھٹا انشا، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

  • by

روشنی ، چھٹا انشا، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

پاسپورٹ کنٹرول کی ڈیسک کے سامنے کھڑے لوگوں کی قطار جس میں ہم بھی شامل تھے چیونٹیوں کی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ان ڈیسکوں پر متعین خواتین و حضرات آفیسر کبھی تو اپنا کام دھیرے دھیرے کرتے رہتے اور کبھی کسی نامعلوم وجہ سے ڈیسک کے سامنے لگی لمبی قطار چھوڑ کر پیچھے بنے کمروں میں شاید کچھ دیر آرام کی غرض سے چلے جاتے۔ پورے ہال کا ماحول جی چاہے تو کام کرو ورنہ آرام کرو جیسا بنا ہوا تھا۔ کوئی سپروائزر ان افسران کی کارکردگی پر نظر رکھتا دکھای نہ دیتا تھا۔ میں دل ہی دل میں کام کے اس امریکی ماحول کا موازنہ برطانوی ایئرپورٹ پر موجود امیگریشن افسران کی کارکردگی سے کرنے لگا۔ وہاں ہر دم موجود سپروائزر محتاط لیکن خوش اسلوب تیز رفتاری سے کام کرنے والے افسران پر مسلسل نظر رکھتے ہیں . جبکہ یہاں کارکنوں کا رویہ کچھ غیر پیشہ ورانہ سا محسوس ہوا۔ میں نے سوچا ہوسکتا ہے یہ صرف اس ایئرپورٹ اور اس شفٹ کا ماحول ہو اور امریکہ کے ماحول کی مکمل نمایندگی نہ کرتا ہو۔ بہرحال یہ سب کچھ الجھن کا باعث ضرور تھا۔ کرسٹوفر کولمبس کے ہسپانوی عملے نے مسلسل سفر کے باوجود خشکی نظر نہ آنے کی مایوسی میں اسے گھیر کر وارننگ دی تھی کہ یا تو وہ جہازوں کا رخ واپسی کے لیے موڑنے کا حکم جاری کرے یا پھر اسے قتل کر دیا جاے گا۔ اس نے مزید تین دن کا وقت مانگا تھا ۔ اب تو کولمبس پر بھی مہم کی ناکامی کا خوف سوار ہو چکا تھا۔ اس نے جہازوں کو پوری رفتار سے چلایا اور مغرب کی سمت چلتا چلا گیا۔ اسی دوران اسے عرشے پر ٹہلتے گیارہ اور بارہ اکتوبر کی درمیانی شب کچھ روشنی نظر آئی۔ اسے بالکل پتا نہیں تھا کہ یہ کس چیز کی روشنیاں ہیں۔ اس نے عملے کو آوازیں دیں کہ وہ بھی آ کر دیکھیں لیکن اس کے عملے کو کوئی روشنی دکھائی نہیں دی۔ کچھ لوگوں نے شبہ ضرور ظاہرکیا لیکن یہ معمہ حل نہ ہوسکا ۔ پاسپورٹ کنٹرول کی قطار کی رفتار کچھ بہتر ہوئی تو خدا خدا کرکے ہماری باری آئی۔ برطانوی پاسپورٹ کی وجہ سے شاید محض دو چار رسمی سوالوں اور بائیو میٹرکس کے مرحلے سے گزر کر کر ہم پاسپورٹ کنٹرول سے فارغ ہوے اور اپنے سامان تک پہنچے. کولمبس کے روشنی دیکھنے کے چار گھنٹے بعد تیسرے جہاز پر کھڑے ایک ملاح کو ایک ریت کا ٹیلہ دکھائی دینے لگا۔ رات کے دو بجے چمکتے چاند کی روشنی میں یہ ٹیلہ چاندہی کی طرح چمک رہا تھا چند لمحوں تک آنکھیں ملنے کے بعد جب اس ملاح کو یقین ہو گیا کہ یہ سراب نہیں بلکہ ذمین ہے تو وہ بے ساختہ چیخ پڑا۔ زمین زمین زمین۔ جہاز کے کپتان نے روایت کے مطابق توپ کا ہلکا سا گولا چلا کر باقی دو جہازوں کو بھی خبردارکردیا کہ زمین نظر آ گئی ہے۔ ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے اختتام پر کولمبس کا بحری بیڑہ نئی دنیا کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ گیارہ ہزار سال سے لاپتہ دنیا کا پتہ دریافت ہو چکا تھا. ہم لگیج کلیکشن سے اپنا سامان جمع کرچکے تو دو ٹرالیز کی ضرورت محسوس ہوئی۔ برطانوی ایئرپورٹ پر تو یہ سہولت مفت مہیا کی جاتی ہے لیکن یہاں امریکی سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیں اپنی موجودگی کا فوری احساس دلایا۔ چھہ ڈالر فی ٹرالی کے حساب سے ادائیگی کر کے ہم نے اپنا سامان ان ٹرالیز پر رکھا اور نتھنگ ٹو ڈکلیر والے گرین چینل سے گذر کر باہر موجود طے شدہ مسافروں کے میٹنگ پوائنٹ تک جا پہونچے۔ اس دوران بچے اپنی خالہ اور خالو سے فون پر مسلسل رابطے میں تھے۔ کچھ ہی دیر بعد غیاث خالو اور یاسمین خالہ دو بڑی ایس یو ویز کی ڈرائیونگ سیٹ سے مسکراتے ہوے باہر نکلے اور بے حد گرم جوش استقبال کے مرحلے سے گزر کر سامان لادا گیا. خوب باتیں کرتے ہوے ہم سب میزبانوں کے گھر کی سمت روانہ ہوے۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *