پردیسی
حمیدہ شاہین
اس بار اکیلے مت آنا
کوئی بات ادھوری لے آنا
جسے مل کے پورا کرنا ہو
کوئی لفظ جسے تم کبھی کہیں نہیں بول سکے
کوئی گیت جسے تنہا نہیں گایا جا سکتا
کوئی رنگ جو میں نے ساری عمر نہیں دیکھا
اک بیگ میں بھر کر لے آنا
جو خواب پرائے دیس میں تم نہیں دیکھ سکے
وہ پھول
جو تم نے کسی کو دینا چاہا اور نہیں دے پائے
وہ نیند
جسے گٹھڑی کی طرح
پلکوں پر لادے پھرتے ہو
سب اپنے ساتھ اٹھا لانا
اس بار اکیلے مت آنا