Skip to content
Home » Blog » حمورابی ، انتیسواں انشا ، ابتدا سے اج کل ، انشے سیریل شارق علی ، ویلیوورسٹی

حمورابی ، انتیسواں انشا ، ابتدا سے اج کل ، انشے سیریل شارق علی ، ویلیوورسٹی

  • by

حمورابی ، انتیسواں انشا ، ابتدا سے اج کل ، انشے سیریل شارق علی ، ویلیوورسٹی

مختصر سے تعارف کے بعد پروف کا لیکچر شروع ہوا۔ کہنے لگے۔ ساڑھے تین ہزار سال پہلے میسوپوٹیمیا کے شہنشاہ حمورابی کی شہرت محفوظ رہ جانے والے وہ قوانین ہیں جو بابل کی عبادتگاہ کے کھنڈرات میں موجود سٹیلا پر کندہ تھے۔ یہ ضابطے انسانی تاریخ میں قوانین کے سب سے قدیم نفاذ کا ثبوت ہیں۔ اسٹیلے لکڑی یا پتھر کے ان قدیم ٹکڑوں کو کہتے ہیں جن پر کندہ تحریر کسی خاص معاشرے کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ کو معلومات فراہم کرے۔ دنیا کا سب سے قدیم تحریری قانون حمورابی کا یہ کوڈ کئی سٹیلوں پر نقش کیا گیا تھا۔ اسے جگہ جگہ عوامی مقامات پر مظاہرے کے لیے رکھا گیا تھا۔ حمورابی کے ضابطے نے قدیم بابل میں زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لکھا کیا تھا اس میں ؟ یہ ضابطہ کہتا ہے کہ لوگ قدرتی طور پر مختلف طبقوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اشرافیہ، عام آدمی، اور غلام ۔ یہ ان پر لازم ہے کہ وہ جس کردار میں پیدا ہوئے ہیں اسے ہر صورت میں نبھائیں۔ یوں یہ ضابطہ معاشرے کے ہر فرد کو ادا کرنے کے لیے ایک واضح کردار دیتا ہے۔ انہیں اس کردار پر قائم رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس طرح یہ وسیع پیمانے پر سماج میں باہمی تعاون کو ممکن بناتا ہے۔ کوفی کا وقفہ ہوا تو ہم نے کپ ہاتھوں میں لیے لاونج میں بیٹھنے کے بجاے سرخ اینٹوں کے فرش والے کورٹ یارڈ میں بچھی لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھنا پسند کیا۔ موسم جو اس قدر خوشگوار تھا۔ وقفے کے بعد پروف لیکچر جاری رکھتے ہوے بولے۔ حمورابی کے ضابطے کو قانون فطرت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ بالکل واضح ہے کہ یہ محض انسانی تصوراتی سوج تھی۔ خواتین و حضرات۔ غیر مساوی ہونے کے باوجود یہ ضابطہ اپنے وقت میں ناقابل یقین حد تک موثر تھا۔ اس کی اصل طاقت لوگوں کو بڑے پیمانے پر اجنبیوں کے ساتھ تعاون کرنے پر راضی کرنا تھی۔ ذرا سوچیے بھلا یہ بات کیسے قانون قدرت ہو سکتی ہے کہ معاشرے میں ہر ایک کو پیدائش کے وقت ایک واضح سماجی کردار تفویض کر دیا جاے۔ اسے اس کردار سے ہٹنے کی آزادی نہ ہو۔ کیا یہ ان لوگوں کے لیے غیر منصفانہ نہیں جنہیں غلاموں حتیٰ کہ عام لوگوں کی درجہ بندی میں رکھا گیا تھا۔ اگرچہ یہ فطری سچ نہیں تھا لیکن پھر بھی طاقتور تھا۔ کیونکہ لوگ اسے تسلیم کرتے تھے اور یہ باہمی تعاون کو ممکن بناتا تھا۔ میرا نکتہ یہ ہے خواتین و حضرات کہ تصور شدہ رایج احکامات ضروری نہیں کہ درست اور منصفانہ ہوں۔ لیکن اگر بہت سے لوگ ان پر یقین رکھتے ہوں تو باہمی تعاون کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔قومیت ، سماج ، معیشت ، مذاہب فطری سچ نہیں لیکن طاقتور ہیں۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *