We are living in the most peaceful era of known human history. Is it because we have evolved into civilised human beings? Or the stark reality that war means mutual destruction and death and looting resources of a defeated enemy is no longer possible
مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو کر ہم کچھ دیر تک سینٹ جونز کالج کے مختلف حصّوں میں گھومتے رہے. کیمبرج کے اس کالج کی سب سے شاندار عمارت اس کا ڈائننگ روم ہے۔ یہ دی ہال کے نام سے مشہور ہے۔ خوبصورت طرز تعمیر خاص طور پر چھت ، پینلنگ اور اس میں لگی تاریخی پورٹریٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں . ہم ہال کے باہر پڑی ایک بینچ پر بیٹھے تو زن نے پروف سے پوچھا. کیا ہم انسان کبھی پائیدار امن دیکھ سکیں گے؟ بولے . ڈھائی ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ کی ابتدا سے انیسویں صدی کے آخر تک یورپ، چین بلکہ پوری دنیا میں جنگوں کا ہونا معمول کی بات تھی . کبھی امن قائم ہوا بھی تو وہ پائیدار نہیں تھا. کچھ برسوں کے وقفے کے بعد جنگ دوبارہ مسلط ہو جاتی تھی. ان کا جواز اس حقیقت پر مبنی تھا کے جنگوں پر اخراجات کم آتے تھے لیکن فتح حاصل کرنے کے بعد دشمن کے وسائل پر قبضہ بےحد منافع بخش ثابت ہوتا تھا. . ان دنوں دولت کا مطلب تھا زرخیز زمین ، مال مویشی اور مفتوح اقوام سے حاصل شدہ غلام عورتیں اور مرد. عبادتگاہوں میں سونے کے چڑہاوے اور زیورات یا قیمتی معدنی ذخائر۔ ان سب اشیاء کی لوٹ مار جنگ جیتنے کے بعد انتہائی آسان تھی۔ لالچ ہی جنگل کا قانون تھا . اور یوں انسان ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگتے رہے. خوشی کی بات یہ ہے کہ آج کے انسان نے جنگل کے اس قانون کو زیر کر لیا ہے۔ وجہ اخلاقی بلوغت سے کہیں زیادہ یہ حقیقت ہے کہ اب جنگ کرنا انتہائی مہنگا اور تباہ کن ہو چکا ہے. اب مفتوح قوم کی خوش حالی کے وسائل پر قبضہ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں رہا.. آج کا دور انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ پائیدار امن کا دور ہے۔ وہ کیسے ؟ میں نے حیران ہوتے ہوے پوچھا . بولے .پائیدار امن سے مراد جنگوں کی غیر موجودگی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے جنگوں کے جواز اور امکانات کا ختم یا کم ہو جانا. آج کسی قوم کے لئے جنگ کا جواز تلاش کرنا جو اس کے لیے مادی طور پر فائدہ مند ہو بہت مشکل ہو چکا ہے۔ کیا فرانس اور جرمنی یا چین اور جاپان اگلے سال کسی جنگ کا جواز ڈھونڈھ سکیں گے ؟۔ ایسا اس وجہ سے نہیں کہ ہم اخلاقی طور پر بہتر انسان بن چکے ہیں. بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب جنگ کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہو گا . فتح کی صورت میں کسی دوسری قوم کی دولت اور وسائل پر قابو پانا بھی اب ممکن نہیں رہا . آج قوموں کی دولمندی اس کے عوام کی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے . وہ قوم امیر ہے جس کا معاشی اور اقتصادی نظام اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت کی بدولت قائم ہو۔ جیسے بینک اور دیگر مالیاتی ادارے۔ یا معلوماتی انقلاب سے جڑی ہوئی ٹیکنالوجی وغیرہ. ایسے ذرائع پیداوار کی لوٹ مار ممکن نہیں. پھر ہم سب بینچ سے اٹھے اور مزید گھوم پھر کر کالج کا کومبینیشن روم، سیکنڈ کورٹ کی عمارت اور اس کی لائبریری دیکھی ۔ سولہ سو چوبیس سے قائم یہ لائبریری اور اس میں رکھے مینیو سکرپٹس دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، با ہر نکلتے ہوے جیک نے پوچھا. جنگی فتح کے بعد لوٹ مار نہ کر سکنے کی کوئی مثال ؟ کہنے لگے . کیلیفورنیا ہی کی مثال لے لو . ایک زمانے میں اس علاقے کے خوشحال ہونے کی وجہ یہاں موجود سونے کی کانیں تھیں۔ آج بھی یہ دنیا کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک ہے لیکن اب اس کی وجہ یہاں موجود سلیکون ویلی اور ہالی ووڈ ہے۔ اب یہاں دولت گوگل انجینیروں اور ہالی ووڈ سکرپٹ رائٹر کے زہن کی تخلیقی صلاحیتوں میں منتقل ہو چکی ہے. اب سونیں کی کانیں ہدایت کاروں اور سپیشل ایفیکٹس وزرڈ کے ذہن اور تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ فرض کرو چین اپنی ایک لاکھ فوج ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سان فرانسسکو میں اتار بھی دے تو وہ اس علاقے کی دولت اور پیداواری صلاحیت کی لوٹ مار کیسے کر سکے گا؟ ممکن ہے دولت پیدا کرنے والے یہ لوگ چینیوں کی آمد سے پہلے ہی پہلی فلائٹ سے بنگلور فرار ہو چکے ہوں…. جاری ہے