In many conflict situations, it is not the issue but relationship that is more important for a happy outcome. Here are few suggestions
جھگڑے کا حل ، فکر انگیز انشے ، شارق علی
اگر آپ کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہیں جسے اختلافِ رائے، تنازعہ یا عام الفاظ میں جھگڑا کہا جا سکتا ہے تو اس کا انجام دو صورتوں میں ممکن ہے۔ مثبت نتیجہ تو یہ ہو گا کہ مناسب اور منصفانہ حل کے بعد مقابل سے آپ کا تعلق مزید مستحکم ہوجائے۔ منفی نتیجے کی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اس تعلق سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا کسی نہ کسی صورت فریقین کو نقصان پہنچے۔ اگر مقابل آپ کے لیے جذباتی یا سماجی طور پر اہم ہے تو یقینا آپ چاہیں گے کہ نتیجہ مثبت نکلے۔ ایسا ہونے میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے آپ کا رویہ. اس موضوع کے حوالے سے میری چند تجاویز کچھ یوں ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسے کسی لمحے میں اگر آپ اشتعال میں آ کر کچھ کرنے والے ہیں تو فوری طور پر رک جائیے. اسے انگریزی میں کہیں گے گٹ گراونڈڈ ۔ مراد یہ ہے کہ ایک سیکنڈ کو رُک کر تحمل سے سوچئے اور اضطراری اور فوری ردعمل سے گریز کیجئے۔ ایسے میں گہری سانسیں لینا مدرگار ثابت ہو سکتا ہے . تحمل کے اس لمحے میں ممکن ہے آپ یہ جان سکیں کہ آپ کا یہ غصہ شاید تھکاوٹ، بھوک یا نیند کی کمی کی وجہ سے ہے جو بڑھ کر جذباتی تناو کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اضطراری حرکت سے رکنے کے بعد ذہنی طور پر ذرا فاصلے سے اسی صورت حال کا دوبارہ سے مشاہدہ کریں. یعنی ذہنی ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر فضا میں بلند ہوجائیں۔ اور فضا سے اس زمینی صورت حال کا دوبارہ جائزہ لیں ۔ سب سے پہلے تو مقابل کی سمت دیکھ کر یہ سوچیں کہ وہ شخص جذباتی یا سماجی طور پر آپ کے لیے کتنا اہم ہے. پھر جھگڑے کو غیر جانبدار ذہنی کیفیت سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ یعنی فریق بن کر نہیں بلکہ ایمپائر بن کر مسئلے کی تہ تک پوھنچھیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے غصے کا مخاطب غلط شخص ہے۔ ہوسکتا ہے وہ صرف پیغام رسانی کررہا ہو اور آپ کے غصے کا صحیح حق دار نہ ہو۔ کشیدہ صورت حال میں زبان اور بدن دونوں بولیاں اہم ہوتی ہیں . منہ سے نکلے الفاظ کے ساتھ آپ کے چہرے کے تاثرات، ہاتھوں کی جنبش۔ غرض یہ کہ بدن کے ذریعے سے جتنے بھی پیغامات مخاطب تک پہنچتے ہیں ، وہ اپنا منفی یا مثبت اثر رکھتے ہیں . آپ کا رویہ یعنی جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اور کررہے ہیں اس تنازعے کا آخری نتیجہ مرتب کرے گا۔ یاد رکھیے کسی بھی قسم کی گالم گلوچ ، یا ہاتھا پائی نہ صرف یہ کے ناقابل قبول ہے بلکہ کرنے والے کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے ۔ سامنے والے کی کردار کشی ، سخت الفاظ میں تنقید یا حقارت آمیز رویہ بالکل اختیار نہ کریں۔ اس کے بجائے اگر آپ مخالف کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوجائیں کہ آپ اس کا نقطۂ نظر سمجھتے ہیں اور اس کا احترام بھی کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کا نقطہ نظر سمجھنے کے لیے آمادہ ہوگا اور یہ سمجھنا سمجھانا ہی تنازعے کے حل کی طرف جاتا ہوا کامیاب راستہ ہے۔ اگر آپ طیش میں کی گئی باتوں کی ذمہ داری کھلے دل سے قبول کرلیں تو اس بات کا امکان ہے کہ سامنے والا بھی ایسا ہی کرے۔ پھر آپ ایک بہتر فضامیں اپنا نقطہ نظر پیش کرسکتے ہیں۔ منفی جذبات کا اظہار بھی اگر مہذب اور سیدھے سادھے انداز میں کیا جائے تو وہ طنز یا غصے کے اظہار مثلاً دروازے کو زور سے بند کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ یاد رکھیے آپ دوسروں پر قابو نہیں پاسکتے۔ آپ کے لیے واحد اور بہتر راستہ یہ ہے کہ آپ خود پر قابو پائیں اور پھر اپنے نقطۂ نظر پر سامنے والے کو قائل کرنے کے لیے دلیل دیں اور مقابل کا نقطۂ نظر سُن کر گنجائش فراہم کرنے کے لیے تیار رہیں ۔کسی جھگڑے کا حل یقینا اہم ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مقابل ایک دوسرے کو سچے دل سے معاف کرسکیں۔ نیلسن منڈیلا نے ایک دفعہ کہا تھا ۔’’ اپنے دل میں بغض رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم زہر کھائیں اور یہ اُمید رکھیں کہ ہمارا دشمن موت سے ہمکنار ہوگا۔‘‘ اکثر صورت حال میں مسئلہ اہم نہیں ہوتا۔ بلکہ دو مقابل افراد کے درمیان رشتہ اہم ہوتا ہے اور اس کے برقرار رہنے پر دونوں کی خوشیوں کا دارومدار ہوتا ہے۔ اسی لیے صرف مسئلے پر مرکوز رہنے کے بجائے دور رس نتائج پر اپنی نظریں جماے رکھنی چاہییں۔ شاید یہ آپ کا تجربہ بھی ہو۔ کہ بعض اوقات کمپیوٹر درست کام نہ کرے تو اسے ری سٹارٹ کرنے سے چھوٹے چھوٹے مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح گھریلو تنازعے کی صورت میں کچھ دیر کے لیے الگ الگ ہوجانا اور مناسب ذہنی کیفیت بحال ہونے تک کسی مسئلے کے حل پر گفتگو کو ملتوی کر دینا بہت سے مسائل سے بچا سکتا ہے۔ طیش کی کیفیت سے باہر آجانے کے بعد رابطے کی کوشش میں پہل کرنا انتہائی سمجھ داری کی بات ہے۔ ممکن ہے یہ چند تجاویز آپ کے لیے کارآمد ثابت ہوں ۔ اب آپ سے اجازت۔ اپنی خوشیوں سے جڑے رشتوں کا خیال رکھیے!