The story depicts the life and suffering of thousands of Syrian refugees living in Zaatari camp who have been forced to flee the war in Syria. More than half of them are children. Haleel is one of them
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
متناسب جسم، درمیانہ قد، دلکش خدو خال اور سنجیدہ مزاج شام سے آیا ہمارا دوست حلیل، آج بہت اداس تھا۔ موضوعِ گفتگو جنگ تھا اور اس کا ملال بالکل بجا۔ کہنے لگا۔ دمشق کی گلیوں میں گزرے بچپن کے ساتھی ریت کے زروں کی طرح دنیا بھر میں بکھر چکے ہیں۔ جنگ کی ہولناکی کے شکار ہمارے بچپن کو بنیادی سہولیات، تحفظ اور تعلیم درکار تھی اور وہاں دھماکوں، آگ اور گولیوں کی بارش کے سوا کچھ نہ تھا۔ پروفیسر بولے۔ بلا شبہ شام کی خانہ جنگی موجودہ دور کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کوئی ایک کروڑ محفوظ زندگی کی تلاش میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ دنیا کے چونتیس ممالک کے جنگجو اس بے مقصد خون خرابے میں شریک ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کا بحران اور روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ جیسی کیفیت کے دوبارہ آغاز کی وجہ یہی جنگ ہے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات کمسن بچوں اور معصوم لوگوں کی در بدری ہے ۔ تم بھی تو دو سال زاتری کیمپ میں رہے ہو حلیل۔ کیسا تھا وہ؟ رمز نے پوچھا۔ بولا۔ شامی سرحد کے قریب اردن میں واقع زاتری کیمپ مجھ جیسے اسی ہزار پناہ گزینوں کی سب سے بڑی بستی ہے۔ گویا اردن کا چو تھا بڑا شہر۔ دو ہزاربارہ میں کیمپ کی آدھی آبادی میری طرح اٹھارہ سال سے کم عمر کی تھی اور غذا، کپڑوں، طبی اور تعلیمی سہولیات کی شدید کمی۔ میرے والد ہر دم اسی فیصلے کی ادھیڑ بن میں رہتے کہ زندگی اسی تنگی میں گزاری جائے یا کسی اجنبی منزل کی جانب قبولیت کا سفر اختیار کیا جائے۔ ہم بچوں کی واحد تفریح کیمپ میں موجود تائی کوانڈو اکیڈمی تھا۔ سخت جسمانی ورزش اور کراٹے کھیلنا ہمارے وجود میں بھرے غصے سے فرار اور روحانی سکون کا زریعہ تھا یہ ادارہ ایک جنوبی کورین چارلیس لی نے قائم کیا تھا۔ کہاں عربی اور کہاں کورین، لیکن محبت اور انسانیت کی زبان سب خلیجیں عبور کر سکتی ہے یہ میں نے وہیں سیکھا۔ اور روز مرہ کی زندگی؟ صوفی نے پوچھا۔ بولا۔ خیموں کی طویل قطاروں والی اس بستی میں مارکیٹ سب سے دلچسپ جگہ تھی۔ سبزیاں، گھریلو استعمال کی اشیاء اور کپڑوں کی دوکانیں۔ دو ایک چائے خانے اور شیشہ پینے کی عیاشی بھی۔ حجاموں کے کھوکھے ، فلافل اور پیزا ریستوران اور ایک ٹریول ایجنسی کا دفتر بھی۔ اسکول صرف تین تھے اور بیشتر پناہ گزینوں کے لئے خاصے فاصلے پر۔ اسی لئے حاضری کم رہتی تھی۔ میں اکثر عابد کی دوکان پر وقت گزاری کے لئے چلا جاتا ۔ وہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جوڑے کرائے پر دیتا تھا۔ عورتوں اور لڑکیوں کا تانتا لگا رہتا تھا وہاں۔ اس دوکان کو زاتری کیمپ کا شانزا لیزے سمجھ لو۔ شامی اردن سرحد پر سب سے با رونق دوکان۔ پھر کیمپ کی آبادی تیزی سے بڑھی تو اسی تیزی سے غذا اور سہولیات میں کمی اور جسم فروشی اور نشے جیسے جرائم میں اضافہ ہوا۔ یونیسیف، آکسفام اور کئی مسلم تنظیمیں صفائی، بجلی اورپانی کے انتظام میں حصہ بٹاتی تھیں۔ پھر بھی ہسپتال اور ڈسپینسریاں مریضوں سے بھرے رہتے۔ بظاہر زندگی مستحکم تھی لیکن گھر لوٹ جانے کی آرزو ہمارے دلوں اور کیمپ کی دیواروں پر صاف نظر آتی۔ لکھا ہوتا۔ ہمیں گھر واپسی میں مدد دیجئے۔ اب بھی کبھی یاد آتا ہے وہ زمانہ؟ میں نے اداس ہو کر پوچھا۔ بولا ۔ جنگ کس طرح معیشت، ماحول اور انسانی آرزو اور رشتوں کو پا مال کرتی ہے یہ میرا بچپن کبھی نہ بھلا سکے گا۔ مایوسی ، نیند نہ آنا اور مسلسل اضطرابی کیفیت کیمپ میں بہت عام تھی۔ بے یقینی، بھوک اور اور بیماریاں اس کے علاوہ۔ تشدد اور پھر تشدد کی یاد کا تشدد زندگی بھر پیچھا کرتا ہے۔ کیمپ میں روزانہ پیدا ہونے والے اسی بچے جانے امید کی علامت تھے یا بے حسی کی۔ یو این کی تحقیق کہتی ہے کہ مجھ جیسے پناہ گزینوں کو نارمل زندگی تک پہنچنے کے لئے اوسطاً سترہ سال درکار ہوتے ہیں۔ مشکل حالات میں زندگی کس قدر جسمانی اور ذہنی لچک اختیار کر سکتی ہے۔ یہ راز مجھ پر وہیں کھلا۔ ریپ اور غربت کے ہاتھوں مجبور مالی منفعت کی حرس میں کم عمری کی شادیوں جیسے گھنائونے جرائم سے بھی اور بے لوث خدمت، ایثار اور محبت جیسے اعلی انسانی رویوں سے بھی میرا تعارف وہیں ہوا۔ ۔۔۔۔ جاری ہے