Home » Blog » Vietnam Ki Kim ویتنام کی کم، دادہ اور دلدادہ، انشے سیریل، چورانویواں انشاء Kim of Vietnam, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 94
Vietnam Ki Kim ویتنام کی کم، دادہ اور دلدادہ، انشے سیریل، چورانویواں انشاء Kim of Vietnam, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 94
Mamdu learns about Vietnam War that began in 1954 against the backdrop of an intense cold War between two global superpowers. Nick Ut and his subject Kim ignited the public opinion against this bloody conflict. Unfortunately 3 million people died including 58,000 Americans
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
ویتنام کی کم، دادہ اور دلدادہ، انشے سیریل، چورانویواں انشاء، شارق علی۔
پہلے لاس اینجلیس سے آئے ہوے فوٹوگرافر کی تصویری نمائش دیکھی، پھر چار کورس کا سلور سروس ڈنر کیا اور آخر میں نیپام گرل کے نام سے جانی جانے والی کم کی آفٹر ڈنر تقریر سنی. دادا جی انٹرنیشنل برنس سوسائٹی کی اختتامی تقریب میں بحیثیت مہمان شرکت کر کے کینیڈا سے کل ہی لوٹے تھے۔ بولے. ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹوگرافر نک اٹ کو انیس سو بہتر میں امریکی نیپام بم سے جھلس کر بھاگتے ویتنامی بچوں کی تصویر کھینچنے پر پولیٹزر انعام ملا تھا۔ تصویر کا مرکزی فوکس تیس فیصد جھلسی ہوئی کم تھی۔ جنگ کے خلاف عالمی ضمیر جھنجھوڑنے میں اس تصویر نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ ڈنر ختم ہوا تو کم، جو اب کینیڈین شہری ہے کی تقریر سنی. ویتنام جنگ کی ہولناکی سے دل دہل گیا۔ یہ جنگ کیوں ہوئی تھی؟ میں نے پوچھا۔ انکل بولے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ویتنام فرانس کی کالونی تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان قابض ہو گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو حکمرانی کا خلا پیدا ہوا۔ ہو چی منہ کمیونسٹ انقلاب کا حامی تھا۔ اور مغربی طاقتیں فرانسیسی تسلط برقرار رکھنا چاہتی تھیں ۔ ہو اور اس کے ساتھیوں نے فرانسیسی استعماریت سے آزادی کی جدو جہد شروع کی تو امریکہ کو خطہ میں کمیونیزم کے پھیلاؤ کا خوف در پیش ہوا اور وہ فرانسیسی تسلط کا حمایتی بن گیا۔ جب فرانسیسی ہوچی منہ سے شکست کھا کر بھاگے تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یانی آپا نے بات آگے بڑھائی۔ جنوبی ویتنام کی کٹھ پتلی حکومت کو امریکی مدد حاصل تھی اور شمالی ویتنام پر حوچی من کی مضبوط گرفت تھی۔ انیس سو چھپن میں الیکشن ہوناتھے اور کمیونسٹوں کی فتح یقینی تھی۔ نام نہاد جمہوریت کا علم بردار امریکہ جب عوامی رائے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا تو تنگ آ کر حوچی منہ نے متحدہ آزاد ویتنام کے لئے باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا۔ انیس سو اکسٹھ میں امریکہ بھی اس جنگ میں کود پڑا۔ امریکی فضائیہ اور زمینی فوجوں نے ظلم کا ہر طریقہ آزمایا۔ نہتے شہروں پر کارپٹ بمبنگ اور نیپلام بم جیسے جرائم بھی انہیں فتح یاب نہ کر سکے ۔ کیا کم ایسے ہی حملے کی زد میں آئی تھی؟ میں نے پوچھا۔ دادا جی بولے۔ بالکل۔ یہ محض اتفاق تھا کہ نک سائیگون سے صرف پچیس میل کے فاصلے پر موجود تھا جب امریکی ائیر فورس نے غلطی سے ایک نہتے گاؤں کو نیپام بم کا نشانہ بنایا۔ یہ تصویر اسی گاوں سے جان بچا کر بھاگتے بچوں کی تھی۔ پھر نک نے ان بچوں کے جھلسے بدن پر پانی ڈالا، انہیں قریبی ہسپتال لے گیا اور کم کی جان بچالی گئی۔ جنگل کی آگ کی طرح یہ تصویر دنیا بھر کے اخبارات میں چھپی۔ عوامی رائے عامہ جنگ کی مخالف ہو گئی اور امریکہ کو اسی سال ہزیمت اٹھا کر ویتنام سے نکلنا پڑا۔ یانی آپا نے کہا۔ ویتنام کی کہانی ظلم اور ہولناکی کا بیان بھی ہے جس میں لاکھوں مقامی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور یہ جدو جہد آزادی کی ایک ولولہ انگیز داستان بھی ہے جو بالاخر کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ ویتنامی جنگلوں سے شناسائی اور گوریلا جنگ میں مہارت نے ہوچی منہ کی فوجوں کا ساتھ دیا تھا۔ تقریباً ساٹھ ہزار امریکی ان گھنے جنگلوں میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ ہو کا انتقال تو دورانِ جنگ انیس سو انہتر میں ہوا لیکن فتح کے بعد سا ئیگو ن کا نام ہوچی منہ سٹی رکھ کر اس کی قوم نے اسے خراجِ تحسین پیش کیا۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے