Niccolò Machiavelli was a renaissance political theorist who wrote in his famous book The Prince that a ruler must be a fox and a lion at the same time.
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
شیریا لومڑی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پینتیسواں انشا، شارق علی
پسند کی کتابیں مل جانے پر ہم بہت خوش تھے. آج جب دادا جی اور انکل نے کرن پور کا پروگرام بنایا تو میں اور یانی آپا بھی ساتھ ہو لئے. کرن پور پھول بن سے پندرہ میل دور چھوٹا سا شہر ہے جس میں موجود کتابوں کی دکانیں اکثر ہمیں وہاں لے جاتی ہیں. میونسپل لائبریری میں کچھ دیرکے لئے رکے تو وہاں ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا. ورق گردانی کرتے ہوۓ میں نے پوچھا. کیا کوئی کتاب منفی اثرات بھی رکھ سکتی ہے دادا جی ؟ بولے. یہ سوال رینیساں کے دور میں لکھی گئی نکولو مکیاویلی (١٥٢٧-١٤٦٩) کی بدنام زمانہ کتاب دی پرنس کی یاد دلاتی ہے جس کا شمار دنیا کی دس پر اثر کتابوں میں کیا جاتا ہے. کچھ بتائے اس کے بارے میں؟ بولے. یہ فلورینس کے شہزادے کو ایک طرح سے نوکری کی درخواست کے طور پر پیش کی گئی تھی اور مصنف کے انتقال کے پانچ برس بعد چھپی. اتنی متنازع کے بہت جلد ہی اس نے عالمی شہرت حاصل کر لی. یہ حکمرانوں کے لیۓ آسان اور عملی انداز میں لکھا گیا ہدایت نامہ ہے. انکل نے کہا. مکیاویلی اطالوی تاریخ دان، فوجی، سیاسی مشیر اور لکھاری تھا. سیاست اور تاریخ پر اس کی گہری نظر تھی. لکھتا کیا ہے وہ اس کتاب میں؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. سیاست کے سنگدل داؤ پیچ. مثلاً وہ لکھتا ہے کہ شہزادے کو صرف اسی صورت میں رحم دل ہونا چایے جب یہ اس کے مفاد میں ہو. ورنہ عوام کی محبّت نہیں ان کے خوف کو حکمرانی کا ذریعہ بنانا چایے. حکمران کا بیک وقت شیر اور لومڑی ہونا ضروری ہے. لومڑی جو بچھے ہو ئے جال سے بچ سکے اور شیر جو حملہ آور بھیڑیوں سے نمٹ سکے. صرف شیر ہونا کافی نہیں. حقیقت پسند قائم اور مثالیت پرست برباد ہو جاتے ہیں. وہ سیاسی کامیابی کو اخلاق اصولوں کی پاسداری سے زیادہ اہم بتاتا ہے. حتیٰ کے اقتدار مستحکم رکھنے کے لئے پچھلے حکمرانوں کی نسل تک مٹا دینے کی ہدایت کرتا ہے. ظاہر ہے کہ یہ متنازع خیالات ہیں لیکن وہ حمایت میں بھرپور تاریخی دلائل دیتا ہے. انکل بولے. اس کے یہاں اخلاقیات صورت حال کے تابع ہیں اور کامیابی کے لئے اصولوں پر سمجھوتا جائز. گویا مکیاویلن سوچ سے مراد خواہش میں اندھی، پر فریب اور ظالمانہ طرزحکمرانی ہے. بدقسمتی سے سب ہی سیاستدان مکیاویلی سے متفق نظر آتے ہیں. ایک مثال امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ہے جس نے خود کو قانون سے بالا تر سمجھا تھا. یانی آپا بولیں. میری رائے میں کامیابی کے لئے مکیاویلی حربے اور سوچ کوتاہ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں. دیرپا کامیابی سقراط جیسی زندگی اور اس کے بیان کردہ آفاقی اخلاقی اصولوں کی پاسداری میں ہے ….. جاری ہے