Is it justified to violate common moral standards in the name of any political or religious view? Mamdu ask and Dada Ji explains in this story
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
شدّت پسند، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، ساٹھواں انشا، شارق علی
نیرنگ آ باد میں مشتعل ہجوم نے پہلے توچرچ پر حملہ کیا، پھر اس کے پیچھے کرسچن جھونپریاں کو جلا کر راکھ کر دیا. متاثرین خیمہ کیمپ میں منتقل ہوۓ تو عارضی ہسپتال میں یا نی آپا، ان کے دوست اورمیں دن بھر طبّی امداد میں مصروف رہے. شام کو گھر لوٹے تو دادا جی اور انکل لان کی کرسیوں پر چائے کا انتظام کئیے جیسے ہمارے ہی منتظر تھے. میں نے نمکین بسکٹ اٹھاتے ہوۓ پوچھا. کیا شدّت پسند جاہل ہوتے ہیں دادا جی؟ بولے. ضروری نہیں ہے. ایسے تعلیم یافتہ لوگ بھی جو حتمی اور واحد سچ کے شیدائی ہوں. خود کو ہم خیالوں سمیت کسی اعلی مشن پر فائز سمجھ کے عقل سے ہاتھ دھو بیٹھیں. کائناتی اسرار کی من گھڑت وضاحتوں کو سوال کیے یا سوچے سمجھےبغیر مان لیں یا عظمت حاصل کرنے کے لئے مذہبی یا سیاسی شناخت کی شدید ضرورت محسوس کرتے ہوں تو وہ سب شدّت پسند کہلائیں گے.نوجوانی میں شناخت کی تلاش کیونکہ شدید ہوتی ہے اس لئے شدّت پسندی بھی. برداشت کا رویہ کمزوری محسوس ہوتا ہے ایسے نوجوانوں کو. انکل بولے. ایسے گروہ ہر دور اور ہر معاشرے میں موجود رہے ہیں. چاہے سفید فام برتری کی حامی امریکا کی کلوکلکس کلان یا کے کے کے ہو جو آنکھوں اور منہ کے گرد سوراخ والے سفید چوغے پہنے سیاہ فاموں کی لنچنگ یعنی بغیر مقدمے کے پھانسی جیسے گھنائونے جرائم کے لئے بائبل سے جواز تلاش کرتے تھے یا آج کی آئ سس اور مصرمیں ١٩٢٨ میں حسن البنا کی اسلامی براد رھوڈ کی تنظیم ہو جو قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر پوری دنیا پر حکمرانی مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے ، بلکل ایک جیسا رویہ رکھتے ہیں. دادا جی بولے. ایسی سوچ عام انسانی اخلاقیات اور سامنے کے صحیح اورغلط کو نہیں مانتی بلکہ اپنے عقیدے کو الله کا حکم قرار دے کر اس کی پیروی کرتی ہے. دلائل ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتے. مثلا جنس کے موضوع پر تعلیم کی ان کی نظر میں قرآن و حدیث میں گنجائش نہیں. یہ دلیل کے ایسی تعلیم لاکھوں انسانی جانیں بچا سکتی ہے ان کے لئے بے معنی ہے. تو پھر شدّت پسندی کا حل؟ میں نے پوچھا. یانی آپا بولیں. اس کا حل تو وہ ان بنی دنیا ہے ممدو جسکا خواب اور جس کی سمت جدوجہد ہر روشن خیال پر فرض ہے. جغرافیائی سرحدوں اور قومیتوں سے آزاد دنیا. جس کے اسکولوں میں بلا تفریق جنس، طبقے، مذہب، نسل، رنگ اورقومیت ایسی بنیادی تعلیم دی جاتی ہو جو آفاقی اخلاقی اصولوں کوبنیاد بناۓ، جو تنقیدی طرز فکر اور آزاد ذہن پیدا کر سکے. سوال کرنے کی ہمّت دے سکے. مذہبی یا نسلی شناخت کےبجائے انسانی اور ثقافتی شناخت پر فخر کرنا سکھا سکے……..جاری ہے
Please click the following link and subscribe to YouTube Valueversity channel. Thanks!