Skip to content
Home » Blog » Sainsi Such سائنسی سچ، دادا اور دلدادہ،انشے سیریل،اکیانوےواں انشا Source of knowledge, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 91

Sainsi Such سائنسی سچ، دادا اور دلدادہ،انشے سیریل،اکیانوےواں انشا Source of knowledge, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 91

Separating truth from perception and differentiating opinion from knowledge is a real challenge for human intellect.  Yani aapa shares her joyful experience to visit Oxford and explains the scientific and religious truth to Mamdu

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

سائنسی سچ، دادا اور  دلدادہ،انشے سیریل،اکیانوےواں انشا، شارق علی
سٹی سینٹر پہنچے تو گائیڈ کا بیج لگائے  سنہرے بالوں والی مقامی طالبہ نے استقبال  کیا. تاریخ  پر عبور اور ہنستا کھیلتا انداز. پیدل سیر کا لطف آ گیا. یا نی آپا آکسفورڈ کو یاد کر رہیں تھیں. بولیں، گائیڈ نے بتایا کہ فرا ئیڈسوائیڈ نامی حسین شہزادی نن بننے کی آرزومند تھی لیکن پڑوس کا شہزادہ دل و جان سے فریفتہ اور شادی کا خواہشمند ہوا تو وہ بھاگ کر اس قصبے میں آ بسی. شہزادہ تعاقب کرتا یہاں پہنچا تو بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا. شادی کا ارادہ ترک کیا تو شہزادی نے معاف کیا اور بینائی بحال ہوئی. فرا ئیڈسوائیڈ نے کرائیسٹ چرچ نننری کی ابتدا کی اور یوں پہلے مذہبی کالج سے آکسفورڈ یونیورسٹی کا آغاز ہوا. اب تو یہ عالمی شہرت کا علمی مرکز ہے. علم کب ایجاد ہوا دادا جی. میں نے پوچھا. بولے.  ابتدائی انسان با شعور ہوا  اور اپنے مشاہدات پہلے یاد کر کے اور پھر لکھ کے جمع کیے تو علم کی ابتدا ہوئی. حقائق کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائیں تو اسے سچ مان لیا جاتا ہے. مشکل یہ ہوئی کہ بعض لوگوں کو اتنا معتبر مان لیا گیا کہ ان کا بیان بھی علم ٹھہرا. مذہبی علم مثلاً مہاتما بدھ کی تعلیمات ایسا ہی علم ہیں. لیکن سائنسدان کسی ایسے سچ کو قبول نہیں کرتے. کیوں؟ میں نے پوچھا. بولے. سائنسی سچ کا اسی دنیا سے متعلق ہونا اور اجتماعی طور پر ہر دور میں، ہرصورتحال میں اور ہر بار آزمانے پر مستحکم ہونا ضروری ہے.  سائنسدان پہلے مسلے اور اس پر اثرانداز محرکات کی نشان دہی کرتے ہیں. پھر مفروضہ قائم کر کے اسے جانچنے کے تجربات یا مشاہداتی معلومات جمع کی جاتی ہیں. مرتبہ نتائج سب کے سامنے پیش ہوتے ہیں. سیر حاصل بحث ہوتی ہے اور حاصل شدہ نتیجے کو حتمی عقیدہ نہیں سمجھا جاتا. جبکہ مذہبی سچ کو رد کرنا ممکن ہی نہیں ہے. پھر مذہبی علم تو با آسانی ہر علاقے، زبان اور ثقافت کے ساتھ مختلف روپ اور رنگ اختیار کر لیتا ہے. آکسفورڈ پہنچی کیسے تھیں آپ ؟ میں نے موضوع  بدلا . بولیں. لندن پیڈنگٹن سے کوئی ایک گھنٹے ٹرین کا سفر تھا. دن ابر آلود. ہوا خوشگوار اور کوٹسوولڈ کے دلکش سبزہ زار اور پہاڑیاں بےحد دلکش. شہر پہنچے  تو پتھریلے رستے اور دونوں جانب اڑتیس کالجوں پر مشتمل یونیورسٹی کی نوکدار میناروں والی پر وقار اور قدیم عمارتیں اور ان میں تراشے گئے مجسمے، بودلیاں کی لائبریری، میوزیم اور قلعہ ، سب کچھ  پریوں کے دیس جیسا لگا. کرائیسٹ چرچ کالج کے گریٹ ہال کی اوپر جاتی سیڑھیوں کی فلم بندی تو ہیری پوٹر سمیت کئی فلموں کے لئے کی جا چکی ہے. شام ہوئی تو کرائیسٹ چرچ کے وسیع سبزہ زار میں قائم ریستوران میں چائے پیسٹری کا لطف اٹھایا. دادا جی بولے. لیویس کیرول جس نے مشہور  زمانہ ایلس ان ونڈرلینڈ لکھی تھی، کرائیسٹ چرچ کالج کے ڈین کا گہرا دوست تھا. ایلس اس کے دوست کی بیٹی تھی جس کے ساتھ گزرے خوشگوار وقت کی یاد کو اس نے اس کردار میں ڈھال کر لازوال بنا دیا ہے. مزے کی بات یہ کہ ہٹلر انگلینڈ پر قبضے کے بعد آکسفورڈ کو اپنا درالحکومت  بنانا چاہتا تھا. اسی لئے جرمن طیارے اس شہر پر بمباری سے باز رہے………..جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *