Skip to content
Home » Blog » Rialto Ka Marko ریالٹو کا مارکو، (مارکوپولو) ، سیج، انشے سیریل، چوالیسواں انشا Rialto Venis, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 44

Rialto Ka Marko ریالٹو کا مارکو، (مارکوپولو) ، سیج، انشے سیریل، چوالیسواں انشا Rialto Venis, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 44

This story will take you to Rialto bridge in Venice. Enjoy the travelogue wonders of Marco Polo, an Italian merchant, explorer, and travel narrator who was born near this bridge

I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
ریالٹو کا مارکو، (مارکوپولو) ، سیج، انشے سیریل، چوالیسواں انشا، شارق علی
واٹر بس جیسے ہی ریالٹو کے آہنی پلیٹ فارم کے ساتھ آکر رکی تو اہلکار  نے مضبوط رسے کو لوہے کے پول کے گرد گرہ درگرہ تیزی سے لپیٹا اور ہم سمیت بہت سے مسافر بغیر لڑکھڑائے موٹر بوٹ سے باہر آئے۔ پروفیسرگل پانیوں میں بکھرے جزیروں پر بسے سحر انگیز اطالوی شہر وینس کی گرانڈ کینال اور نہری گلیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ بولے۔ پیدل گزرگاہ کے ایک طرف گرانڈ کینال اور اس میں تیرتی کشتیاں تھیں اور دوسری جانب سیاحوں کی دلچسپی اور ضرورت کی اشیاء سے لدی دوکانیں اور ریستوران۔ ہمارے بالکل سامنے گرانڈ کینال کو عبور کرتا ریالٹو کا پل تھا۔ کہتے ہیں یہ مارکیٹ تیرھویں صدی سے قائم ہے۔ پہلے خریدار پانی پر تیرتے لکڑی کے پشتوں کو عبور کر کے یہاں پہنچتے تھے۔ پھر پہلے لکڑی اور پندرہ سو اکیانوے میں پتھروں سے پل تعمیر کیا گیا جو آج بھی قائم ہے۔ دو کمان نما ریمپ جن کے ساتھ دوکانیں ہیں ایک کشادہ مرکزی پورٹیکو سے جا کر ملتے ہیں۔ اونچا اتنا کہ کشتیاں با آسانی گزر سکیں۔ ریالٹو کا پل آج بھی وینس کی تعمیراتی علامت سمجھا جاتا ہے . وہیں ہم نے روایتی گونڈولا سواری کا لطف بھی اٹھایا۔ کیسا تھا وہ تجربہ؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ بے حد خوش نما اور سجی سجائی پتلی اور لمبی کشتیوں کو گونڈولا کہتے ہیں جن کے ایک سرے پر سوٹ پہنے اور ہیٹ لگائے ملاح چپووں کی مدد سے کشتی رانی کی مہارت دکھاتا ہے۔ بہت رومانوی، پر سکون اور آرام دہ کشتی رانی کا تجربہ ہے یہ۔ ملاح بہت مہارت سے پلوں کے نیچے سے گونڈولا گزارتے ہیں اور موڑ کے نزدیک  آتے ہی صدا بلند کر کے دیگر کشتیوں کو وارن کرتے ہیں۔ بہتی کشتی کے دونوں جانب کئی منزلہ اونچی عمارتیں ہیں اور ان میں دکھائی دیتی  زندگی کی چہل پہل۔ ایسی ہی ایک عمارت کی سمت اشارہ کر کے ملاح نے اسے مارکوپولو کا گھر بتایا تھا۔ کچھ تفصیل اور مارکو کی؟ رمز نے کہا۔ بولے۔ وہ بارہ سو چون میں وینس جو ایک امیر تجارتی شہر تھا کے تاجر گھرانے میں پیدا ہوا اور صرف سترہ سال کی عمر میں اپنے والد اور چچا کے ساتھ ریشم کی تجارت کے لئے چین کے سفر پر روانہ ہوا۔ مشرقی یورپ اور شمالی چین  کو ملانے والے قدیم راستے شاہراہ ریشم کہلاتے ہیں۔ مارکو کا قافلہ ان ہی راستوں سے کئی برس کے سفر کے بعد قبلائی خان کے دربار تک پہنچا۔ اپنے طویل سفر میں اس نے بہت سے عظیم  شہر دیکھے جس میں یروشلم کا مقدس شہر بھی شامل تھا۔ وہ ہندوکش پہاڑوں اور ایران کے میدانوں اور صحرائے گوبی کے ویرانوں سے گزرا۔ طرح طرح کے لوگ ملے۔ حیرت انگیز واقعات کا سامنا ہوا۔ پھر چین میں قیام اتنا طویل تھا کہ چینی زبان سیکھی۔ قبلائی خان کے پیغامبر اور جاسوس کی حیثیت سے وہ دور دراز علاقوں مثلاً موجودہ میانمار اور ویتنام تک پہنچا۔ چین کیسا لگا اسے؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ وہ چینی شہروں اور قبلائی خان کی دولتمندی اور آسائشوں سے بہت متاثر ہوا۔ ان دنوں یورپ میں ایسی شان و شوکت کا تصور بھی مشکل تھا۔ چین کا مرکزی شہر کنسے تو بے حد جدید، وسیع، منظم اور صاف ستھرا تھا۔ کھانے پینے کی اشیا، لوگ، رہن سہن اور وہاں کے جانور مثلاً بن مانس اور گینڈے اس کے لئے حیرتوں کی دنیا تھی۔ وہ یورپ کا پہلا سیاح تھا جس نے چین اور مشرق بعید کی ثقافت کو قریب سے دیکھا اور سمجھا۔ اسی کی سنائی کہانیوں سے اس وقت کے یورپ نے قدیم چینی ثقافت کی ذہنی تصویر بنائی۔ بیس سال دنیا گھومنے کے بعد مارکو کا بحری بیڑا سات سو ساتھیوں اور ایک چینی شہزادی سمیت جو ایران کے شہزاداے سے شادی کی آرزومند تھی وینس واپسی کا سفر شروع کرتا ہے۔ راستے کی مشکلات میں بیشتر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ صرف ایک سو ستر لوگ جن میں چینی شہزادی جو بالآخر کامیابی سے ایران پہنچی، واپس آنے والوں میں شامل تھی۔ مارکو بارہ سو اکھتر میں گھر سے نکلا تھا اور بارہ سو پچانوے میں واپس وینس لوٹا۔ سفر نامے کب لکھے اس نے؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ اسے بد قسمتی کہو یا حسن اتفاق کے واپس گھر پہنچنے پر وینس اور جنووا کے درمیان ہونے والی جنگ میں وہ جنووا کا جنگی قیدی بن گیا۔ قید میں اس کی ملاقات رستاچِیلو نامی لکھاری سے ہوئی جسے مارکو نے اپنے سفر کے حالات تفصیل سے سناے۔ رستا چِیلو  نے یہ سفر نامے ایک کتاب کی صورت لکھے۔ نام تھا مارکو پولو کے سفرنامے۔ یہ کتاب پورے یورپ میں بے حد مقبول ہوئی اور بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ کچھ ناقدین نے مارکو پر گپ لگانے کا الزام بھی لگایا لیکن بعد کی تحقیق سے اس کی سچائی ثابت ہوئی۔ مارکو کے سفر کا سب سے مشکل مرحلہ صحرائے گوبی کی مہینوں لمبی مسافت تھی۔ اس دور میں دنیا کو یقین تھا کہ یہ صحرا آسیب زدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *