Rani Bagh was established as a botanical garden in 1861 and later converted into a zoo. In this episode, Professor Gill is taking us through the childhood nostalgia in the historical city of Hyderabad, Sindh
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
رانی باغ ، سیج، انشے سیریل، گیارہواں انشاء
ءمر کوئی دس گیارہ سال۔ چھوٹی سائیکل پر کرتب دکھانے کا ماہر۔ وہ ٹھنڈی سڑک اور رانی باغ کے بالکل قریب جی او آر کالونی میں ہم سے تین گھر چھوڑ کر رہتی تھی۔ خوش لباس، سلیقے سے بندھی پونی ٹیل. جوگرز پہنے نیلے رنگ کی چمکتی سائیکل بہت احتیاط سے چلاتے کئی بار دیکھا۔ پھر ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلانے والے اور حیران مسکراہٹ میں دوستی ہو گئی۔ پروفیسر گل اپنا بچپن یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ بچوں کی لائبریری میں فیروز سنز کی کتابوں کے دونوں دیوانے۔ یوں تو رانی باغ کئی بار کا دیکھا ہوا تھا، پھر بھی بزرگوں کی نظر بچا کر کبھی ٹھنڈی سڑک کا رخ کرتے۔ دو طرفہ گھنے درخت چھتری کی طرح سایہ دار تھے۔ فٹ پاتھ پر پیدل باتیں کرتے، تازہ پڑھی کہانیاں سناتے ہوے دور تک جاتے۔ کبھی رانی باغ کا جنگلا تھام کر اندر کی چہل پہل، سرسبز لان، سرخ اینٹوں والے فٹ پاتھ ، آلو چاٹ کے ٹھیلوں اور ہاتھی کے گرد کھڑے حیرت زدہ بچے دیکھتے۔ سندھی دستکاری اور سستے زیورات کی دوکان اس کی پسندیدہ تھی۔ پھر کبھی ملنا ہوا رانی باغ سے آپ کا؟ صوفی نے مسکرا کر پوچھا۔ بولے . بہت سالوں بعد جانا ہوا تو دل بہت دکھا۔ اجڑے لان میں دھول اور کوڑا کرکٹ۔ ٹوٹی فٹ پاتھ، جانور بہت کم اور بد حال۔ ہر طرف آوارہ کتوں کا راج۔ یہ وہ باغ نہیں تھا جس نے دو بچوں کی پہلی رفا قت کو مسحور کر دیا تھا۔ بنا کب تھا یہ باغ؟ رمز بولا۔ بولے۔ انگریزوں نے 1866 میں بوٹانیکل گارڈن بنایا تھا ۔ بعد میں پرندے اور جانور لائے گئے۔ پورا علاقہ اٹھاون ایکڑ پر مشتمل تھا جس میں باغ، چڑیا گھر، عیدگاہ اور کھیل کا میدان شامل تھا۔ پھر بد عنوانی اور انتظامی لا پرواہی نے رانی باغ اجاڑ دیا۔ اور شہر؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔غلام شاہ کلہوڑو نے 1768 میں دریائے سندھ کے کنارے مچھیروں کی بستی نیرون کوٹ کے کھنڈرا ت پر بسایا تھا اسے۔ اسی کے حکم پر شہر میں موجود تین پہا ڑیوں میں سے ایک پر بھٹی میں پکی اینٹوں سے قلع تعمیر ہوا جو پکا قلع کہلاتا ہے . پھر صوفی جہانگشت کی اولاد ا چ سے آ کر یہاں آباد ہوئی تو یہ روحانی مرکز بنا۔ کئی صدیوں تک حیدرآباد سندھ کا دارالحکومت رہا۔ تالپوروں نے اور وسعت دی۔ 1843 میں میانی کےمقام پر تالپور نیپیئر کی فوج سے ہارے تو یہ برطانوی راج کا حصہ بنا۔ تقسیم ہوئی تو سکھ اور ہندو ہندوستان سدھارے اور مہاجرین یہاں آباد ہوئے اور آبادی اور سہولتوں کا تناسب بگڑ گیا ورنہ انگریز دور میں گلیاں دریا کے صاف پانی سے دھلتی تھیں۔ مکانوں کی چھت پر ایسے ہوادان موجود تھے جو ٹھنڈی ہوا کو کمروں میں پھینکتے۔ اور ثقافت؟ رمز نے پوچھا۔ بولے۔ میرے بچپن میں تو یہ دہقانی اور شہری زندگی کی ملی جلی ثقافت کا پر امن شہر تھا۔ گرمیوں کی رات میں ٹھنڈی ہوا جیسے بادِ بہاری اور ویسے ہی ٹھنڈے، خوش باش اور کشادہ دل لوگ۔ سا ئیں جیس ہوٹل کے لذ یذ چکن پیٹیس اور جیمخانہ میں کھیلوں کا لطف۔ شاہی بازار کی تنگ گلیوں میں بکتی ربڑی اور بمبئی بیکری کے کیک۔ سب کچھ لاجواب تھا۔ پھر 1980 کے مہاجر سندھی فساد نے محبت بھرے شہر اور لوگوں کے عکسِ خیال کو زخمی کر دیا۔ میرے لئے تو آج بھی بچپن کی حسین یاد کا شہر ہے حیدرآباد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے