Home » Blog » Quaid Ka Khwab قائد کا خواب، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکیاونواں انشا Jinnah`s dream, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 51
Quaid Ka Khwab قائد کا خواب، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکیاونواں انشا Jinnah`s dream, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 51
Cyrus cylinder, a baked-clay cylinder in Akkadian language with cuneiform script, is now recognized as the world’s first charter of human rights. Did Cyrus and Jinnah have the same dream?
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
قائد کا خواب، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکیاونواں انشا، شارق علی
میریٹ کی لابی میں پروفیسر رسل منتظر تھے۔ میں پوھنچا تومصر ہو گئے کہ تمہارے شہر سے تعارف کچھ دیر سڑکوں پر پیدل گھوم کر ہو۔ استاد کا حکم سر آنکھوں پر۔ ہوٹل سے باہر آ کر سڑک عبور کی اور فٹ پاتھ پر میٹرو پول ہوٹل کی طرف چل دیئے۔ انکل پٹیل کراچی کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ فریئر ہال کی عمارت دیکھی تو بولے۔ پہلے لمبا سا چکر لگا لیا جائے۔ اور آخر میں کچھ وقت یہاں بھی۔ سندھ کلب کے گیٹ سے گزر کر میٹرو پول پہنچے اور وہاں سے مہران ہوٹل کی جانب چلے۔ قائد اعظم ہاؤس کی عمارت کے سامنے ذرا دیر کو رک گئے۔ پیلے پتھروں سے بنے کشادہ در و دیوار اور برطانوی طرز تعمیر بہت نمایاں۔ سامنے سر سبز لان اور خوش نما درخت۔ میں نے کہا۔ اس عمارت اور درختوں کے پاس سے گقائد کا خواب، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکیاونواں انشا، شارق علیزروں تو قائد کا خواب اور ان کی سوچ ہواؤں کی تازگی بن کر وجود سے ٹکراتی ہے۔ وہ ایک ایسے وطن کا قیام چاہتے تھے جس میں رزق حلال، چادر اور چار دیواری کا احترام اور مساوات سب کو میسر ہو۔ تشدد، بد سلوکی، جہالت اور نفرت سے تحفظ سب کو حاصل ہو۔ نسل مذہب اور زبان کی تفریق کے بغیر۔ بے لوث محبت اور باہمی احترام کا یہ خواب جانے کب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ پروفیسر بولے۔ دلوں پر حکمرانی کا گر جاننے والے ایک جیسے خواب دیکھتے ہیں۔ ایران کے عظیم بادشاہ سا ئیرس نے 539 ق م میں قدیم شہر بیبیلون فتح کیا تو انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسے اقدامات کئے جو آنیوالی انسانی تہذیب کے لئے انقلاب آفرین ثابت ہوئے۔ اس نے شہر کے تمام غلاموں کوآزاد کردیا. عام شہریوں کو اپنے من پسند مذاہب اختیار کرنے کی آزادی دی۔ سب بسنے والوں کو مساوی قرار دے کر نسلی برتری کے تصور کا خاتمہ کر دیا۔ پھر انسانی حقوق کے یہ تصورات ہندوستان، یونان اور روم تک پہنچے۔ میں نے کہا۔ سائیرس کی اس با ضمیری نے پہلی بار ہم انسانوں کو قوانین قدرت کی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ اصول جو انسانی عقل کو فطری طور پر درست معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا احترام ہمارے وجود، ہماری روح میں گندھا ہوا ہے۔ پروفیسر نے کہا۔ اب یہ پاکستان میں بسنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ انسانی حقوق کی با ضمیری کو اختیار کرتے ہیں یا رد۔ یہ تو اب قانون سازوں کی ثواب دید پر ہے کہ وہ آئین پاکستان کو عالمی انسانی حقوق سے ہم آہنگ بناتے ہیں یا نہیں۔ برطانوی مگنا کا رٹا یا فرانسیسی ڈکلیریشن کی طرح آئین پاکستان کو بھی عالمی برادری میں قابل احترام مقام دلواتے ہیں یا نہیں۔ دستاویز خوابوں کی بقاء کی ضمانت ہوتی ہے. سا ئیرس کے انقلاب آفرین اقدامات اور اس کا خواب اگر مٹی کی قدیم تختیوں پر تحریر نہ کیا جاتا تو آج کی انسانی تہذیب تک کبھی نہ پہنچ پاتا. مٹی کی تختیوں پر لکھی عالمی انسانی حقوق کی یہ پہلی دستاویز اقوام متحدہ نے محفوظ کر لی ہے۔ اس کا ترجمہ چھ عالمی زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ اور موجودہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے چار بنیادی اصول سا ئیرس کی مٹی کی تختیوں پر لکھی دستاویز سے لئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے