Home » Blog » Qissa Khwani Bazar قصّہ خوانی بازار، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اڑتالیسوں انشا Bazar of storytellers, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 46
Qissa Khwani Bazar قصّہ خوانی بازار، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اڑتالیسوں انشا Bazar of storytellers, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 46
In the Bazar of Story-tellers, here comes the story of storytelling and the first non violent sacrifice made for the freedom of Indian subcontinent
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
قصّہ خوانی بازار، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اڑتالیسوں انشا، شارق علی
زلزلے کو دو ماہ گزر چکے تھے. میں اورکرنل خان آزاد کشمیر کے تفصیلی دورے کے بعد ایبٹ آباد گیسٹ ہاؤس پہنچے. انکل پٹیل ٢٠٠٥ کا سانحہ یاد کر رہے تھے. بولے. تباہ شدہ ملبے کے ڈھیر ، سڑکوں میں پڑی دراڑیں، مظفرآباد ہسپتال کی جھول کھائی عمارت اور خیمہ ہسپتالوں میں زیر علاج معذور. رات گئے تک ڈونرز میٹنگ کے لئے رپورٹ مکمل کی. چند گھنٹے آرام اور علی الصبح پشاور روانگی. ماہر ڈرائیور نے میٹنگ سے بہت پہلے پوھنچا دیا. قہوہ پینے قصّہ خوانی بازار پہنچے تو رومانوی تصور کو دھچکا لگا. نہ کارواں نہ سرائے، نہ ہی آتشدان کے گرد بیٹھے دور دراز منزلوں سے آئے کہانی کہتے سنتےمسافر. وہی عام بازارکی سی بھاگ دوڑ ، گاہکوں کا جمگھٹ اور ٹریفک کا شور. قہوہ اور کلچہ لیکن لاجواب. خان نے بتایا. پھولوں کا شہر پشاور ہندکو بولتے پشوریوں کا شہر تھا جس میں افغان اور آزاد علاقوں کے پشتو بولنے والے بھی آ بسے. یہ وسطی اور جنوبی ایشیا کا سب سے قدیم شہر ہے. دوسری صدی عیسویں میں قصّہ خوانی کی سرایوں میں کنیشکا تہذیب کے مسافرمختلف دنیاؤں کی خبر لئے قیام کرتے اور روشن الا ئو کے گرد حلقہ بناے قہوہ ہاتھ میں لئے کہانیاں کہتے اور سنتے تھے. میں نے کہا. پہلی انسانی کہانی تویقیناً اس بازار سے بھی زیادہ قدیم ہے. جانے کس غار میں ابتدائی انسانی گروہ کے کسی شکاری نے کہانی کہ کرناکامی کا جواز پیش کیا ہو، یا خطرناک شکار سے پہلے خوف دور کیا ہو. کامیابی کی امید دلائی ہو. تہذیب آگے بڑھی تو کہانی کار کو طاقت اور احترام حاصل ہوا. تحریر سے پہلے واقعاتی تفصیل کو کہانی کی صورت کہنا اور سننا ہی سیکھنے کا واحد ذریعہ تھا. پھر کائناتی اسرار اور موت کے بعد کی کہانی سنانے والے مذہبی رہنما بن گئے. لوگ اور کہانیوں سفر کرنے لگے. بقول انتظار حسین کہانیاں آوارہ گرد ہو گئیں . لیکن کچھ دور دراز کے سفر سے گھر کو بھی لوٹیں. قصّہ خوانی کتنا روشن ہوتا ہو گا ان دنوں جب دور دراز اور نسل در نسل تجربات اور دانشمندی کے روشن چراغ یہاں جگمگاتے ہوں گے. جب اندوہناک اور ناقابل فہم صدموں سے یہ کہانیاں انسان کو سہارا دیتی ہوں گی . طوفان ، زلزلے، بجلی کی چمک، ستاروں بھری رات کی آسان وضاحت کی تسّلی دیتی ہوں گی . بزرگوں کی عظمت اور اندیکھے خداؤں کو مبالغے سے سنوارتی ہوں گیں. خان نے کہا. آج بھی تو ہم کہانیوں میں گھرے ہوۓ ہیں. فلم، ڈرامہ، شاعری، خبریں، مصوری، اور دوسروں کے مذاھب ہمارے لئے کہانیاں ہی تو ہیں. سیاست، طب، قانون، ادب، تجارت غرض یہ کہ کون سا شعبہ ہے جو کہانیوں کے بغیر گزارا کر سکے. میں نے کپ میز پر رکھا اور کہا. جانے کتنوں نے اسی جگہ حیران کرتی، گدگداتی، آنکھیں نم کرتی اور قصّہ گو کے انداز، تیور اور لب و لہجے کے ساتھ ہلکورے لیتی کہانیوں کا ہاتھ تھاما ہو. خان نے کلچے کا آخری ٹکڑا اٹھایا اور بولے. اس بازار کی سب سے ولولہ انگیز کہانی ١٩٣٠ میں باچا خان کی قیادت میں آزاد ہندوستان کے لئے پہلی عدم تشدد کی نہتی قربانی ہے. برطانوی سامراج کی آرمڈ گاڑیاں پر امن عوام پر چڑ ھا دی گئیں تھیں. بے دریغ گولیاں برسائی گئیں اور سرکاری بیان بیس اور مقامی لوگ کہتے ہیں چار سوخدائی خدمتگارشہید ہوۓ . تحریک آزادی کا یہ فیصلہ کن لمحہ قصّہ خوانی کی سب سے لازوال کہانی ہے…..جاری ہے