Skip to content
Home » Blog » Pur Mussarat Dunya پرمسرت دنیا، سیج، انشے سیریل، تینتالیسواں انشا Happy planet index, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 43

Pur Mussarat Dunya پرمسرت دنیا، سیج، انشے سیریل، تینتالیسواں انشا Happy planet index, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 43

We need well being for all in this world. A happy and sustainable planet for all of us.  Happy planet index measures what matters most.   It tells us how well nations are doing at achieving long, happy and sustainable lives

I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial

Listen, read, reflect and enjoy!

پر مسرت دنیا، سیج، انشے سیریل، تینتالیسواں انشا، شارق علی
جیسم کے اداس رہنے کی خبر ملی تو بہت حیرت ہوئی ۔ کہنے کو تو ہماری طرح وہ بھی سیج کا طالب علم تھا اور ہوسٹل میں اس کے نام بھی ایک کمرہ موجود لیکن وہ زیادہ تر فہم آباد میں کرایہ پر لئے محل نما بنگلے میں بہت سے ملازمین کے ساتھ رہتا تھا۔ گلف کے شاہی خاندان سے متعلق ہونے کے سبب قیمتی کاریں اور فرنیچر، ڈیزائنر ملبوسات سے بھرے وارڈروب اور ہفتہ واری مہنگی دعوتیں اور دنیا بھر کی سیاحت۔ پھر ڈپریشن کا کیا سوال؟ آج لائبریری کے لائونج میں یہ بات پروفیسرگل سے پوچھی تو بولے۔ کبھی خود سے سوال کرو کہ زندہ کیوں رہا جائے اور سوال در سوال اسی کیوں کا پیچھا کرو تو آخری جواب ہو گا خوش رہنے کے لئے۔ خوشی کا جواز مختلف ذہنوں میں ایک سا نہیں ہوتا ۔ کچھ کے لئے دولت، بڑا گھر اور سماجی مرتبہ اور کچھ محض اچھی غذا، دلکش موسیقی، مہربانی کے سلوک یا ملک ملک گھومنےکو خوشی کہیں گے۔ خودمیرے لئے اچھی صحت، خوشگوار انسانی رشتے اور روحانی سکھ ہی خوشی ہے۔ جواز چاہے کچھ بھی ہو  یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پر مسرت زندگی توازن اور انصاف سے جڑی ہوئی ہے۔ گویا دولتمندی، آسائشیں، سماجی مرتبہ اور شہرت وغیرہ کافی نہیں بلکہ وہ تہذیب ذہن بھی درکار ہے جو دوسرے انسانوں کا احترام اور قدرتی وسائل کا منصفانہ استعمال سکھائے۔ اور پر مسرت سماج؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ ایسا سماج جو دنیا کے قدرتی ماحولیاتی نظام کی خوبصورتی کو قائم رکھتے ہوئے اپنی عوام کو پر سکون، صحت مند، خوشحال اور تخلیق افزا زندگی کا موقع فراہم کر سکے۔ کسی ملک کو کامیاب اور ترقی یافتہ کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہاں کی عوام کو میسر آسائشیں، صحت مندی اور طویل زندگی کہیں قدرتی وسائل کے بے دریغ اور خود غرض استعمال کی وجہ سے تو نہیں؟ ہم یورپ اور امریکہ میں رہنے والوں کی مادی آسائشوں سے دھوکہ کھا کر انہیں پر مسرت اور کامیاب سمجھنے کی غلطی کر سکتے ہیں۔ تو پھر ملکوں کی کامیابی کا معیار؟ رمز نے پوچھا۔ بولے۔ عالمی دانشوروں نے غالباً دو ہزار سولہ میں ملکوں کی کامیابی ماپنے کے لئے ہیپی پلانیٹ انڈیکس  ایچ پی آی یا  پر مسرت دنیا کا معیار پیش کیا تھا ۔ یہ ایک طرح کا سمت نما ہے جو ممالک اور حکومتوں کو یہ بتاتا ہے کہ ماحولیات اور قدرتی وسائل کے احترام کے ساتھ بھی شہریوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس معیار کے مطابق دنیا کا سب سے پر مسرت ملک امریکہ، برطانیہ یا کوئی اور یورپی ملک نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کا ملک کوسٹاریکا ہے۔ متوازن معیار زندگی کے ساتھ صحت مند اور طویل زندگی پانے والی یہاں کی آبادی قدرتی وسائل کا احترام کرنا جانتی ہے۔ حکومت اور عوام کا یہ رویہ اس ملک کو تہذیب یافتہ ملکوں میں سر فہرست بناتا ہے۔ کچھ اور تفصیل ایچ پی آی کی؟ . میں نے پوچھا . بولے . یہ معیار چار پہلوئوں سے ملکوں کا جائزہ لیتا ہے۔ پہلا پہلو ہے شہریوں میں خوشی، تحفظ اور اطمینان کا احساس۔ گیلپ عالمی سروے کے ذریعے اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ دوسرا پہلو ہے طویل عمری جو اچھی غذا، فضائی آلودگی میں کمی اور صحت سے متعلق بہتر سہولیات کی ترجمانی کرتی ہے۔ یعنی اوسطاً اس ملک میں بسنے والے کس عمر تک زندہ رہتے ہیں۔ تیسری بات ایک ہی ملک میں بسنے والوں کے درمیان امیری غریبی کا فرق ہے۔ یعنی اچھی غذا، روزگار، صحت کی سہولتیں، طویل عمری، خوشحالی، تحفظ اور اطمینان سب کو میسر ہے یا نہیں۔ اس کا تعین بھی سروے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ چوتھا پہلو ہے ایکولوجیکل فٹ پرنٹ۔ یعنی عوامی مسرت کا یہ معیار قائم رکھنے کے لئے کہیں حکومت اور شہری قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال تو نہیں کر رہے۔  ایچ پی آی کی ضرورت ہی کیوں؟ رمز  نے کہا ۔ بولے۔ ہماری دنیا ماحولیاتی اعتبار سے ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ملکوں کے درمیان معاشی نا ہمواری اور ایک ہی ملک کی عوام میں امیری غریبی میں ہوتا اضافہ اور قدرتی وسائل میں تیزی سے ہوتی کمی سنجیدہ غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم انسانوں کو پر مسرت لیکن مستحکم دنیا درکار ہے۔ چار سالہ الیکشن جیتنے پر مرکوز تنگ نظر سیاسی حکومتیں غلط ترجیحات رکھتی ہیں۔ عالمی دانشور کم از کم درست سمت کی نشاندہی تو کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *