Skip to content
Home » Blog » Parsi Theatre پارسی تھیٹر، سیج، انشے سیریل، بیالیسواں انشا Parsi Theatre, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 42

Parsi Theatre پارسی تھیٹر، سیج، انشے سیریل، بیالیسواں انشا Parsi Theatre, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 42

From 1850 to 1935,  Parsi theatre dominated the Indian culture scene.  Agha Hasahar Kashmiri was the shining star of that era

I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial

Listen, read, reflect and enjoy!

پارسی تھیٹر، سیج، انشے سیریل، بیالیسواں انشا، شارق علی
عموماً گم سم رہنے والے دانی بھائی بھی خوب ہیں۔ سیج ڈرامیٹک سوسائٹی کے کرتا دھرتا اور تھیٹر کی تاریخ پر گہری نظر۔ آج ٹی ہائوس میں ملے تو گپ شپ کے موڈ میں تھے۔ میں نے بات چھیڑی۔ بر صغیر میں تھیٹر کا آغاز کیسے ہوا دانی بھائی؟ بولے۔ انگریز راج میں گورے اٹھارہ سو پچاس ہی سے نجی محفلوں میں انگریزی تھیٹر کھیلا کرتے تھے۔ پھر بمبئی کے ایلفینسٹن کالج میں ڈرامیٹک سوسائٹی قائم کی گئی تو باقاعدگی سے شیکسپیئر کے ڈرامے ہوئے۔ بمبئی کی پارسی بزنس کمیونٹی نے جو انگریزوں سے بہت قریب تھی اٹھارہ سو تریپن میں پہلی پارسی تھیٹر کمپنی ناٹک منڈلی قائم کی اور پہلا کھیل رستم اور سہراب کھیلا گیا۔ پھر بادشاہ افراسیاب اور بادشاہ فریدون اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا۔ پہلے تو شیکسپیئر کی ہندوستانی طرزمیں نقالی کی گئی۔ پھر مقامی زبان، لوک ثقافت اور رسم و رواج کی عکاسی کا اظہار بڑھتا چلا گیا۔ اردو کا کوئی قابل ذکر ڈرامہ نگار؟ سوفی بھی گفتگو میں شریک ہوئی ۔ بولے۔ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں اس وقت کے تھیٹر کا بے تاج بادشاہ چین کی نیند سو رہا ہے ۔ آغا حشر کاشمیری جن کا بھرپور تذکرہ حکیم احمد شجاع نے اپنی یاد داشتوں میں کیا ہے۔ منٹو نے بھی اپنی کتاب گنجے فرشتے میں ان کا خاکہ اپنے منفرد انداز میں تحریر کیا ہے ۔ کراچی میں دو ہزار پانچ میں جب آغا حشر کا ستر سالہ یادگاری جشن منایا گیا تو ضیاء محی الدین اور ڈاکٹر انور سجاد نے کہا تھا کہ کبھی بر صغیر میں تھیٹر کی تاریخ لکھی گئی تو یہ نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ کچھ اوران کے بارے میں؟ رمز نے پوچھا۔ بولے۔ اٹھارہ سو اناسی میں پیدا ہونے والے آغا حشر اردو کے ممتاز ڈرامہ نگار تھے۔ درسی کتابیں ان کے لئے دلچسپ نہ تھیں اسی لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بمبئی آکر نیو ایلفریڈ تھیٹر کمپنی میں پندرہ روپے ماہوار پر ملازم ہوئے اور شیکسپیئر کے ڈراموں کو ہندوستانی رنگ میں ڈھالنا شروع کیا۔ وہ پارسی تھیٹر کا دور تھا۔ ان کے پہلے کھیل آفتاب محبت میں یہ رنگ صاف جھلکتا ہے۔ پھر ان کے ڈراموں میں انفرادی اسلوب نے جگہ بنائی اور گانے اور ہم قافیہ مکالماتی تک بندی شامل کی تو مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا۔ شہرت بڑھی تو چالیس روپے ماہوار پانے لگے۔ انیس سو تیرہ میں یہودی کی لڑکی منظر عام پر آیا تو وہ ان کا شاہکار قرار پایا۔ نہ صرف پارسی تھیٹر میں شہر شہر کھیلا گیا بلکہ پہلے اس پر خاموش اور پھر باقاعدہ فلم بنی جس میں دلیپ کمار، مینا کماری اور سہراب مودی جیسے فنکار شامل تھے۔ دوسرے کھیلوں میں آنکھ کا نشہ اور رستم و سہراب بہت مقبول ہوئے۔ پارسی تھیٹر کی بھی کچھ تفصیل؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ انیس سو پینتیس تک سفری پارسی تھیٹر کمپینیان جنہیں بزنس کمیونٹی اور پارسی فنکاروں کی سرپرستی حاصل تھی نے شمالی ہندوستان، گجرات اور مہاراشٹر میں اردو، ہندی اور دیگر زبانوں کے فروغ میں اپنا حصہ بٹایا ہے۔ موسیقی، رقص، تخیل کی پرواز، زمینی حقائق، سماجی بیانیے اور اداکاروں کی انفرادیت ان کھیلوں سے خوب ابھری۔ مزاح، مدھر دھنیں، ڈرامائی عنصر اور اسٹیج کی آرائش کی نت نئی صورتیں پیدا ہوئیں۔ مقصد تو تفریح اور کاروبار تھا لیکن پھر ان کھیلوں میں لوک کہانیاں، شاعری اور موسیقی بھی شامل ہوئی اور یہ زبان و ثقافت کے فروغ کا ذریعہ بنے۔ بائی اسکوپ شروع ہوا تو پارسی تھیٹر کے انہی پروڈیوسروں نے اولین فلمیں بنائیں۔ ان کے تخلیقی تجربے اور پارسی بزنس کمیونٹی کے سرمائے سے ہندوستانی سینما کا آغاز ہوا۔ موجودہ بولی ووڈ کی بنیاد پارسی تھیٹر ہی ہے۔ آج بھی بولی ووڈ پر خاص طور پر گانوں کی عکس بندی میں یہ اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔ آغا حشر کی ذاتی زندگی؟ رمز نے بات بدلی۔ بولے۔ ان کی شادی مختار بیگم سے ہوئی جو پاکستانی گلوکارہ فریدہ خانم کی بڑی بہن تھیں۔ ان کی مشہو ر غزل” چوری کہیں کھلے نہ نسیم بہار کی” ان کی بیوی مختار بیگم نے گائی تھی جسے ٹینا ثانی نے دوبارہ زندہ کیا ہے۔ ایک اور غزل’’ غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا‘‘خلیل احمد کی موسیقی میں پی ٹی وی  سے نسیم بیگم نے گائی ہے۔ عمر کے آخری حصے میں خود اپنی شیکسپیئر تھیٹر کمپنی قائم کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر وہ لاہور چلے آئے اور اپنی فلم بنانے کے دوران ہی انیس سو پینتیس میں انتقال ہوا—— جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *