Skip to content
Home » Blog » Parday Kay Peechay, پردے کے پیچھے، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیانواں انشاء Behind the curtain, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 96

Parday Kay Peechay, پردے کے پیچھے، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیانواں انشاء Behind the curtain, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 96

Set of steps joining Piazza di spagna square and the church at the top in Rome is the setting for Dada ji to remember the sculptor, painter, architect, and poet, Michelangelo, who has been described as one of the greatest artists of all times

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

پردے کے پیچھے، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیانواں انشاء، شارق علی۔
ڈیلا فوارے کی کگر سے ٹیک لگا کر بیٹھے میں چیسٹ نٹ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اینٹوں کے فرش والا یہ تکون لیکن کشادہ چوک پیازا ڈی اسپیگنا کہلاتا ہے۔ ارد گرد فیشن ایبل دوکانوں کی قطاریں . ہر طرف گھومتے سیاح اور مقامی لوگ۔ چوک میں جا بجا بکھرے پھولوں، کتابوں اور مقامی مصوروں کے فن پاروں کے اسٹال۔ موسیقی کے زور پر دنیا گھومتے کنگلے سیاحوں کے لگاے ہوے مجمعے میں ستائش اور سکوں کا شور اور ایک آئس کریم وین بھی ۔ پہلے تو میں نے بکتی تصویروں پر سرسری نگاہ ڈالی۔ پھر فوارے کی دوسری جانب تتلی کی طرح لہراتی اوپر جاتی سیڑھیوں پرقدم با قدم چڑھنے لگا۔ یہ اسپینش اسٹیپس کہلاتی ہیں اور اوپر پہاڑی پر بنے دو  میناروں والے ٹرینیٹا دی مونٹی چرچ کو اس چوک سے ملاتی ہیں۔ دادا جی اٹلی کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ ان سیڑدھیوں کی تعمیر ایک غیر معروف ماہر تعمیرات فرنچسکو دی سانکٹز  نے اٹھارویں  صدی کے شروع میں کی تھی۔ یہ اب روم کا ہر دل عزیز سیاحتی مقام ہے۔  ایک سو اڑتیس لہریےدار اور تتلی کی پرواز جیسے قدم اور کہیں کہیں رکتے چبوترےجن پر بیٹھ جائیں تو  ایک خاص ماحول میں شہر کے نظارے اور راز مسافروں پر آشکار ہوتے ہیں۔ دیکھا کیا وہاں سے آپ نے؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ آغاز ہی میں وہ مکان ہے جس میں رومان پرست انگریز شاعر جون کیٹس رہا کرتا تھا اور وہیں اٹھارہ سو اکیس میں اس کی وفات ہوئی ۔ پھر پیازا کا با رونق چوک جو اٹھاوریں صدی میں مصوروں ، شاعروں اور موسیقاروں کا پسندیدہ مسکن تھا۔ وہ وہاں بیٹھے تصویریں اور نغمے تخلیق کیا کرتے تھے۔ روم کی امیر اور فیشن ایبل حسینائیں خریداری کے بہانے اس امید پر چوک کے چکر لگاتیں کہ شاید کوئی مصور انہیں اپنا ماڈل بنا لے یاوہ کسی شاعر کی توجہ اور اس کے کلام کا مرکز بن سکیں . رفاقت کے آرزومند امیر تاجر بھی وہاں  کھنچے چلے آتے  اور یوں یہ چوک آباد رہتا۔ روم کے شہری بےکار فنکاروں سے ضرور بیزار ہو جاتے ہوں گے؟ میں نے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ یا نی آپا بولیں۔ سماج میں حسن و عمل فنکاروں ہی کے دم سے تو ہے ممدو۔ وہ اپنے دور کی ثقافتی تاریخ فن پا روں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ان کے اٹھاے ہوئے سوالات اور روایت سے ان کا تصا دم سماجی ارتقاء کے امکانات پیدا کرتا ہے۔ وہ ہمیں جذبات اور محسوسات کا شعور دیتے ہیں اور لا شعوری حقیقتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ درونِ ذات کے اسرار کینوس پر یا گیلی مٹی پر ہاتھوں کی جنبش سے  ابھا ر دینا کسی معجزے سے کم تو نہیں۔ اور سائنسدان؟ میں نے اصرار کیا۔ بولیں۔ یہ درست ہے کہ  سائینسدان سماج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی سوال ہے کیسے اور اس کا جواب زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ جبکہ فنکارکا  بنیادی سوال ہے کیوں اور یوں زندگی کی پر اسراریت اور معنی خیزی  ہم پر عیاں ہوتی ہے۔ فنکاروں کے بغیر سماج ایسا ہی ہے جیسے رنگ اور روشنی کے بغیر کوئی تصویر۔ مائیکل انجیلو شاید اسی لئے روم کا ہیرو تھا؟ میں نے قائل ہوتے ہوئے کہا۔ دادا جی بولے۔  اس کا بچپن فلورینس میں گزرا تھا اور وہیں اسکول سے بھاگا تھا وہ۔ روم آیا تو با کمال استادوں سے ہنر سیکھا۔ حاسدوں نے بہت مشکل سنگ مرمر کی چٹان دی تھی اسے ڈیوڈ  کا مجسمہ تراشنے کو۔ وہ ارد گرد پردے ڈال کر خفیہ انداز میں یہ چٹان تراشتا رہا۔ پردہ اٹھا تو فلورنس کے لوگ بلکہ آج تک دنیا دنگ ہے کیونکہ تیرہ فٹ اونچا  ڈیوڈ کا مجسمہ کسی معجزے سے کم نہیں. ناقدین کے مطابق پرفیکشن سے قریب تر کی بہترین مثال ہے یہ شاہکار.  اور مائیکل انجیلو کو لازوال بنانے کے لئے کافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *