Without the help of incredibly skillful Sherpa guides, the adventure of climbing Everest is unthinkable. Enjoy the story of indispensable porters, who risk their own lives every time they tackle the world’s highest mountain
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
نامچے بازار، سیج، انشے سیریل انتالیسواں انشاء، شارق علی
سرد رات کی مدھم روشنی میں کوئلوں پر رکھے سمووار سے اٹھتی تبتی قہوہ کی مہک میں حدت کا احسا س تھا۔ ہم دالان میں لکڑی کی کرسیوں پر نیم دراز ایکسپیڈیشن میٹنگ کے لئے پرتھمبا کا انتظار کر رہے تھے۔ کٹھمنڈو کے مرکزی بازار تھامل میں واقع اس گیسٹ ہاؤس میں ہمارے قیام کا پہلا دن تھا۔ رمز سیج ایلپائن کلب کے ساتھ نیپال میں گزاری چھٹی کا احوال سنا رہا تھا۔ بولا۔ تھامل کا بازار چالیس برسوں سے سیاحوں اور کوہ پیما ٹیموں کے لئے دور دراز پہاڑوں میں مہم جوئی سے پہلے خریداری اور منصوبہ بندی کے لئے عارضی قیام گاہ ہے۔ ستر کی دہائی میں حشیش کی بہتات، سستی رہائش اورکھانوں کی وجہ سے یہ بازار ہیپیوں میں مقبول ہوا۔ سیاحوں سے پر تنگ گلیاں، دونوں جانب مہم جو دلچسپی اور روز مرہ اشیا کی دکانیں، سامنے کے رخ ریستوران اور اوپری منزل یا عقب میں رہائشی ہوٹل۔ معمولی دکھتی دکانوں میں بھی کوہ پیمائی کا ایسا نادر سامان جو دنیا میں کہیں اور دستیاب نہیں۔ سردی سے بچاؤ کا لباس، برف میں نہ پھسلتے جوتے، مضبوط خیمے، سلیپنگ بیگس، اسپریٹ لیمپس، کوہ پیما رسیاں اور جانے کیا کیا کچھ۔ چلتے پھرتے سی ڈی بیچتی دکانوں سے ابھرتی بدھسٹ اور مغربی موسیقی کی سحر انگیز دھنیں سننے کو ملتیں ۔ پہاڑی نقشے، پرانی کتابیں اور مقامی سوغاتیں بیچتے کھوکھے۔ با رونق، مصروف لیکن پر امن اور اتنا گنجان بازار کے گوگل میپ کی ہدایات نہ ہوں تو قیام گاہ تک پہنچنا مشکل ہو ۔ اوروہ پرتھمبا ؟ سوفی نے پوچھا ۔بولا۔ ارے ہاں۔ پرتھمبا ہماری ٹیم کا شرپا گائیڈ تھا جس کے ساتھ ہم ٹریکنگ پر نامچے بازار تک گئے۔ شمالی نیپال میں ماؤنٹ ایوریسٹ سے بہت قریب کھمبو اور کولنگ کی اونچی وادیوں میں بستے ہیں۔ شرپا۔ اس کا بچپن بلندیوں سے پگھلتی برف کے شور مچاتے دریاؤں سے تراشی سر سبز تنگ وادیوں اور سنگلاخ پہاڑوں میں اچانک آ جانے والے میلوں گہرے کٹاؤ کے جغرافیہ میں گزرا ۔ اب تو وہ پڑھ لکھ کر کٹھمنڈو میں آباد ہے اور ایکسپیڈیشن کمپنی کا مالک۔ چھوٹے قد، گٹھے ہوئے بدن، گوری رنگت اور تبتی خدو خال والے شرپا پہلے دہقان اور چرواہے تھے۔ اب کوہ پیماگائیڈ اور خدمت گزار ہیں پینتالیس ہزار کی یہ آبادی دنیا کی سب سے اونچی انسانی بستیوں میں رہتی ہے۔ سطح سمندر سے تین چار کلو میٹر اوپر۔ اسی سے پتہ چلا کے قدیم شرپا ماؤنٹ ایوریسٹ کو کومولنگاما دیوتا مان کر اس کی پوجا کرتے تھے۔ زبان شرپالی کہلاتی ہے جو تبتی زبان کی بولی ہے۔ افسانوی برفانی انسان ییٹی جو بلند برفانی غاروں میں رہتا ہے شرپا لوک کہانی کا کردار ہے۔ گھر کیسے ہوتے ہیں ان کے؟ میں نے پوچھا نامچے بازار میں پرتھمبا کا آبائی گھر دیکھا۔ پتھروں سے تعمیر دو منزلہ مکان اور لکڑی سے بنی سیدھی چھت۔ نچلی منزل میں جانور اور ان کے چارے، ایندھن کی لکڑیوں اور اضافی غلے کا ذخیرہ۔ اوپری منزل میں رہائش کا انتظام. کمروں کا فرش اور چھت لکڑی کی۔ فرش پر یاک کی کھال کا قالین۔ فرنیچر برائے نام۔ دو ایک بینچیں، باقی فرشی بستروں کا انتظام۔ ایک کونے میں پوجا اور دیا روشن کرنے کا انتظام بھی۔ اور طرزِ زندگی؟ پروفیسر گل نے پوچھا۔ بولا۔ پورا علاقہ نومبر سے فروری تک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ صرف بوڑھے لوگ غذا اور ایندھن کے انتظام سمیت گاؤں میں رہ جاتے ہیں۔ باقی آبادی نیچے وادیوں میں ہجرت کر جاتی ہے۔ فروری میں ساری آبادی موسمِ بہار اور نئی سال کی ولولہ انگیزی لئے گاؤں کو لوٹتی ہے۔ کھیتی باڑی کا آغاز ہوتا ہے۔ گرمیوں میں بھی خوب سردی اور بارشیں۔ جولائی میں فصلوں کے کام سے فارغ ہو کر اور تجارتی قافلوں کے لوٹنے پر اور چرواہوں کے ریوڑوں کو بلند مرغزاروں پر لے جانے سے پہلے۔ دمجی کا سات روزہ تہوار منایا جاتا ہے۔ دعوتوں، رقص و سرود اور مقامی عبادتگاہوں کی زیارت کا اہتمام ہوتا ہے رنگین لباس اور ماسک پہن کر شیطانی قوتوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ نومبر تک فصل کٹ جاتی ہے۔ کسی شرپا شادی میں شریک ہوئے تم؟ سوفی نے پوچھا۔ بولا۔ شرکت تو نہ کر سکا لیکن تفصیل ضرورمعلوم ہوئی۔ شرپا شادی زیندی کہلاتی ہے۔ شادی سے پہلے دو ایک برس لڑکے کو اپنے سسرال میں رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس عرصے میں ہم آہنگی ہو تو دونوں گھرانوں کی رضامندی سے شادی طے ہوجاتی ہے۔ بہترین لباس پہنے بارات پہنچتی ہے تو پہلے انہیں رقص و موسیقی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر کھانا ملتا ہے دولہا اور دلہن کے ماتھے پر مکھن مل کر شادی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جہیز میں قالین ،یاک کی کھال کے پائیدان اور مویشی دئیے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ عورتیں ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی ہیں۔ دو بھائیوں کی ایک بیوی کوئی انہونی بات نہیں۔ ۔۔۔۔جاری ہے