Skip to content
Home » Blog » Mun Moji من موجی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، بانویوان انشا Artisan, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 92

Mun Moji من موجی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، بانویوان انشا Artisan, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 92

Sadequain Naqqash, a world-renowned Pakistani artist, wanted to give a precious gift to Karachites. His skills as a calligrapher and a painter were unmatchable and so was his moral integrity. An incomplete mural on the ceiling of Frere Hall is a sorrowful commemoration

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

من موجی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، بانویوان انشا، شارق علی
لنچ سے فارغ ہو کر ہم سندھ کلب کے لان میں بیٹھے چائے کا انتظار کر رہے تھے. میں نے پروفیسر رسل سے کہا. آزادی سے پہلے یہاں آتے تو لنچ آپ کو اکیلے کرنا پڑتا اور مجھے اس کلب کے باہر ہی روک لیا جاتا. بولے. وہ کیوں؟ میں نے بتایا. ١٨٧١ میں قائم ہوا یہ کلب صرف انگریزوں کے لئے مخصوص تھا اور مقامی لوگوں اور عورتوں کا داخلہ منع . وزیراعظم کی رہائش گاہ یوں تو سڑک کے دوسری جانب سامنے ہی تھی لیکن ١٩٥٠ تک کلب کے استعمال کی اجازت انھیں بھی نہیں تھی. آزادی کا تحفہ سمجھیے کہ باہر لگی عورتوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع والی تختی دروازے سے ہٹا لی گئی. انکل پٹیل آج پھر کراچی کو یاد کر رہے تھے. بولے چائے سے فارغ ہو کر میریٹ ہوٹل کی طرف پیدل نکلے تو فریئر ہال کی دیدہ زیب عمارت نگاہوں کے سامنے تھی. میں نے بتایا. سر ہینری فریئر نے سندھ کی معاشی ترقی اور فارسی کی جگہ سندھی زبان کو رائج کرنے کی جو خدمات انجام دی تھیں، ان سے منسوب یہ عمارت انہی کوششوں کی یاد دلاتی ہے. کسی زمانے میں یہ نایاب تصویروں اور کتابوں سے مالا مال میوزیم ہوا کرتی تھی جسے کراچی کے عام لوگ با آسانی استعمال کر سکتے تھے. اب تو قریبی سفارتخانوں کی حفاظت کی دلیل دے کر اسے عوام کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے. ادھورے نقش و نگار سمیٹے اب تو اندرونی منظر بے حد اداس محسوس ہوتا ہے. وہ کیوں؟ پروفیسر نے پوچھا. میں نے وضاحت کی. ہال کی چھت پر لکھے ہوۓ الفاظ ارض و سماوات کراچی کے ایک با کمال مصور صادقین کے اس آخری کام کی یادگار ہیں جو وہ ١٩٨٧ میں اپنی موت کے باعث مکمل نہ کر سکے تھے. ایک ادھورا میورل جسے وہ اس شہر کے عوام کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے. صد افسوس کے اب اس شہر کی زندگی اور تصویروں کے روشن رنگ حکمرانوں کی سنگ دل بے حسی کے باعث  مدھم پڑتے چلے جا رہے ہیں. کبھی ملے تم صادقین سے؟ پروفیسر نے پوچھا. میں نے کہا. ملا تو نہیں لیکن مرے بچپن کی کچھ یادیں ان سے جڑی ہوئی ہیں. منگلا ڈیم کی سیر کو گیا تھا امی ابّا کے ساتھ. وہاں صادقین کا بنایا میورل محنت کی کہانی دیکھا تھا .  پہلی بار انسانی تہذیب کے ارتقا میں محنت کش مردوں اور عورتوں کی حصّے داری دل پر نقش ہوئی. پاور ہاؤس میں چلتے ٹربائن انجن اور صادقین کا میورل ، دونوں ہی طاقت کی علامت لگے. پھر ایک دن ٹی وی پر ادبی پروگرام میں انٹرویو دیتے دیکھا. سیاہ اچکن، علیگڑھ کاٹ کا سفید پاجامہ، دبلا پتلا جسم، تراشی ہوئی مونچھوں اور دراز بالوں والے خوش شکل صادقین کی گونج دار لرزتی آواز میں سنا یہ جملہ یاد رہ گیا. میں زندگی میں ہر بحران جھیل سکتا ہوں سوائے ضمیر کے بحران کے. کچھ اور صادقین کے بارے میں. پروفیسر نے دلچسپی لی. میں نے کہا. ١٩٢٣ میں امروہہ میں پیدا ہونے والا اٹھارہ سال کی عمر میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گیا تھا. مصوری کے اسرار و رموز سیکھنے کا شوق پیرس میں قیام کا سبب بنا. کراچی کے اس من موجی فنکار کی پہلی نمائش اسی فریئر حال میں ہوئی تھی اور پہلا میورل اسی شہر کے جناح ہسپتال کے لئے بنایا. وجہ شہرت فن خطاطی بنا. تمغہ امتیاز اور لاریئٹ ڈی پیرس کے اعزاز بھی ملے . رباعیات اور قطعات لکھ کر شاعری میں بھی منفرد مقام بنایا. بہت سے اداروں اور خلیجی ممالک کے لئے میورل بنائے ، لاکھوں کمائے لیکن دامن دل کو دولت سے کبھی میلا نہیں ہونے دیا، صوفی منش اور بلا نوش. ہزاروں تصویریں بنا کر مداحین کو مفت تحفوں کی صورت میں تقسیم کیں. غالب، اقبال اور فیض کی شاعری اور نوبل انعام یافتہ البرٹ کیمس کے کام کی مصورانہ ترجمانی صادقین کے کمال فن کا ثبوت ہیں. ان کی تصویریں امرا کے ڈرائنگ روم کی سجاوٹ نہیں بلکہ محنت کشوں کی اجتمائی جد و جہد کو پیش کیا گیا بھرپور خراج تحسین ہیں ………..جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *