Skip to content
Home » Blog » Muhafiz e Sheher محافظ شہر، دادا اور دلدادہ ،، انشے سیریل، نواسیواں انشا Cityguard Saint. Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 89

Muhafiz e Sheher محافظ شہر، دادا اور دلدادہ ،، انشے سیریل، نواسیواں انشا Cityguard Saint. Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 89

Many Karachites laugh off the belief that Shah Ghazi’s spirit remains Karachi’s best deterrent against raging cyclones from Arabian Sea.  But no one can shrug off the harmony this shrine has created amongst the various communities of our cosmopolitan city

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

محافظ شہر، دادا اور دلدادہ ،، انشے سیریل، نواسیواں انشا، شارق علی
بار بی کیو ٹونائیٹ سے سنڈے برنچ کر کے نکلے تو  سر کی خواہش پر عبدالله شاہ غازی کے مزار کی طرف پیدل چلے. انکل کراچی میں اپنے استاد سے ملاقات کا ذکر کر رہے تھے. بولے. سڑک پر پڑے کنکر کو ٹھوکر لگی تو سر صدیق نے کہا.   ناترا شیدہ ہیرا بالکل اس کنکر جیسا بدرنگ اور کھردرا ہوتا ہے. لیکن شفاف اور روشن ہونے کا امکان اپنے اندر سمیٹے ہوۓ . دانشمندی احتیاط سے تراش دے تو امکان حقیقت بن جاتا ہے. اچھے استاد اور زندگی کی مشکلات اسی تراش خراش کا دوسرا نام ہیں. مزار کے دروازے تک پہنچے  تو زائرین کا رش دیکھ کر بولے. صدیوں سے صوفیائے کرام کا پیغام محبت اور ہم آہنگی ہے. اونچائی پر واقع مزار تک جاتی سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے مسلم، ہندو، عیسائی ، چڑھائی گئی سبز، نارنجی، فیروزی چادریں، دھمال اور قوالی کا شور، گیندے، چمبیلی اور گلاب کے مہکتے ہار، دوکانوں میں بکتی علاقائی سوغاتیں اور لنگر میں بٹتے بتاشے، حلوے اور بریانی اسی محبّت اور ثقافتی ہم آہنگی کے مظہر ہیں. وہی شاہ غازی نا جو کراچی کی سمت کسی سمندری طوفان کو بڑھنے نہیں دیتے؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. عقیدتمندوں کا یہی خیال ہے کہ ان کا اٹھا روحانی ہاتھ سمندر کو روکے ہوے ہے . مقامی مورخ سہیل لاری کے مطابق شاہ صاحب ساتویں صدی  میں گھوڑوں کی تجارت کے لئے یہاں آئے ہوۓ عرب تاجر تھے. پھر سندھ کی صوفی تعلیمات سے متاثر ہو کر یہیں مستقل قیام کیا اور لوگوں کو محبّت اور امن کی تعلیم دینے لگے. ایک دن کچھ مریدوں سمیت اندرون سندھ سفر پذیر تھے کہ جنگل میں گھات لگائے دشمن کے حملے میں شہادت پائی . مرید جسم مبارک کراچی ساحل کے اس  مقام تک لے آئے جہاں آپ نے اس دھرتی پر پہلا قدم رکھا تھا . یہ علاقہ اب کلفٹن سی ویو کہلاتا ہے. یہاں کے  سب سے اونچے ٹیلے کی چوٹی پر آپ کی تدفین کی گئی. سمندری طوفان شہر کی تباہی  کا سبب کیسے بنتا ہے؟ میں نے پوچھا. یا نی آپا بولیں. سینکڑوں میل تک پھیلے ہوۓ تیز ہواؤں کے دائرہ وار جھکڑ اور تیز بارش ساحلی شہروں میں سیلابی تباہی کا باعث بنتے ہیں. سمندر کا پانی دھوپ سے گرم ہو جائے اور ہوا کے دباؤ میں کمی واقع ہو تو ٹھنڈی اور گرم ہواؤں کا ملاپ تیز رفتار طوفان جنم دیتا ہے. ہریکین، سائیکلون اور ٹائیفون طوفانوں کی ایسی ہی ملتی جلتی صورتیں ہیں جنہیں سائنسدان مقام کی نسبت سے یہ مختلف نام دے دیتے ہیں. شاہ غازی کب سے کراچی کی حفاظت کر رہے ہیں؟ میں نے متاثر ہو کر پوچھا. انکل بولے. پہلے کا حال تے الله جانے لیکن اس مزار کی پہلی تصویر ١٩٤٠ میں کھینچی گئی تھی. اونچے ریتیلے ٹیلے  پر چھوٹا سا مزار اور ساتھ لہراتا ہوا علم.  ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان اور اس کے بعد بھٹو دور میں درگاہ کی شہرت دور تک پہنچی. ہر زبان اور ہر علاقے کی ثقافت کے رنگ سالانہ عرس میں نظر آنے لگے. آج بھی بہت سے بے گھروں کو یہاں سے کھانا اور مایوسوں کو امید ملتی ہے. شاہ غازی کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں سوائے سمندری طوفانوں کے…….جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *