In a bright day of 1638, he jumped from Galata tower near Bosphorus for the first flight with artificial wings in the history of aviation. He landed successfully at Uskudar, on the Asian side of Istanbul
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
ہزارفن ، سیج، انشے سیریل، اٹھائسواں انشا
استنبول کے میٹرو اسٹیشن سیشانے سے باہرنکلے تو مصروف سڑک کے اس پار چمکتی دھوپ میں ایشیا اور یورپ کو تقسیم کرتے آبنائے بوسفورس کے نیلے پانیوں پر نگاہ پڑی۔ سڑک عبور کی اور تراشے ہوئے پتھروں سے بنی سینکڑوں برس پرانی اونچائی کو جاتی سڑک پر سامنے نظر آتے گلاٹا ٹاور کی سمت چلنے لگے۔ سوفی ترکی میں گزاری چھٹیوں کا ذکر کر رہی تھی۔ بولی۔ رستے کے دونوں جانب پر رونق دوکانیں اور ریستوران تھے۔ کوئی دو سو فٹ اونچے مینار کے گول صحن نما احاطے میں ایک نو جوان ترکی ساز کوپیز تھامے ایک نامانوس لیکن دل سوز دھن بجا رہا تھا۔ سامنے بکھرے لیرے اس کی مہارات کا ثبوت تھے۔ ٹکٹ کی قطار توقع سے کچھ کم تھی۔ سیکیورٹی چیک سے گزر کر تین چوتھائی چرھائی لفٹ میں طے کر کے ایک گول کمرے میں پہنچے۔ ایک کونے میں سولویں صدی کے شاہی تخت کا سیٹ لگا کر اور زرق برق گاون پہنا کر تصویریں کھینچی جا رہی تھیں۔ پھر بقیہ سیڑھیاں پیدل چڑھ کر آخری منزل کے شاندار ریسٹورینٹ اور ارد گرد سیاحوں سے بھری مشاہداتی گیلری سے استنبول کو دیکھا۔ پروفیسر بولے۔ چودھویں صدی میں جینویز لوگوں نے تراشیدہ پتھرون سے یہ فوجی مینار تعمیر کیا تھا۔ نوکیلے گنبد اور منفرد طرزِ تعمیر کی بلندی سے بوسفورس اور شہر کے یورپی اور ایشیائی حصوں کا نظارہ ایک خوش کن تجربہ ہے۔ گلاٹا جیل بھی رہا ہے اور فوجی رہائش گاہ بھی۔ اس کا گنبد سما کی محفلوں میں مولانا رومی کے کلام کی قرات سے بھی گونجا ہے۔ لیکن سب سے روشن حوالہ سولہ سو اڑتیس میں استنبول کے شہری ہزارفن احمت چلابی کی انجن کے بغیر صرف پر نما بازؤں کی مدد سے انسانی تاریخ کی دلیرانہ پرواز ہے۔ کچھ اور تفصیل اس کی؟ رمز نے پوچھا۔ بولے. اڑنا ہزارفن کے بچپن اور جوانی کا جنون تھا۔ برسوں کے سائنسی مشاہدے، تجربات اور بھرپور منصوبہ بندی کے بعد اس نے یہ چھلانگ لگائی تھی۔ اس روشن دن استنبول کے شہریوں نے اسے گلاٹا کی بلندی سے پروں سمیت دلیری سے کودتے دیکھا۔ پھر وہ کامیاب پیرا گلایڈنگ پرواز کرتے ہوۓ بوسفورس کے پانیوں کو عبور کر کے استنبول کے ایشیائی حصے میں اسکودار کے مقام پر با حفاظت اتر گیا۔ فضائی تاریخ میں باقی دنیا سے دو سو برس پہلے یہ ایک عظیم کارنامہ تھا۔ اس واقع کا احوال ایک مورخ ایویلیا چلیبی نے اپنی کتاب سیاحتنامہ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ کس طرح شہر میں اس کی کامیابی کا جشن منایا گیا۔ کیسے سلطان مراد چہارم نے اسے ایک ہزار ااشرفیوں سے نوازا۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے ما تحت ملکوں کا ہیرو بن گیا۔ سوفی بولی۔ تاریک پہلو اس واقع کا یہ ہے کے اس دور کے مذہبی عالموں نے اس کارنامے کو رضائے الہٰی کے برعکس سمجھا۔ ان کی دلیل تھی کے خدا کا منشا انسانی پرواز ہوتا تو وہ ہمارے پر لگاتا۔ گویا ہزارفن یہ پرواز کر کے کفر کا مرتکب ہوا۔ انہوں نے سلطان پر زور ڈال کر سزا کے طور پر اسے ملک بدر کر کے الجیریا بھیج دیا۔ یہ وہی دور تھا جب عیسائی پادریوں نے گلیلیو کو اس کی دریافتوں کی سزا گھر میں قید کر کے دی تھی۔ گویا مذہب اور سیاست ہمیشہ ہی سچ سے خوفزدہ رہے ہیں۔ دو سال کی جلا وطنی کے بعدہزارفن صرف اکتیس برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوا۔ استنبول کا ایک ہوائی اڈہ آج بھی اس کے نام سے منسوب ہے۔ گویا وہ آج بھی مصروفِ پرواز ہے۔ قیام کی آخری رات بوسفورس میں تیرتی فیری میں ڈنر کرتے ہوے گلاٹا ٹاور پر نگاہ ڈالی تو وہ رنگ برنگی روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہزارفن کی یاد دلاتا عروس استنبول کے ماتھے پر دمکتا حسین جھومر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے