Mark of the thousandth anniversary of Hungary, Heroes’ Square is the largest and most impressive square of Budapest. Enjoy the glimpse of one of the most beautiful cities in Europe
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
تیز بارش میں سبز دھاریوں والی ہوپ آن اور آف بس میں سوار ہونا مناسب سمجھا۔ گائیڈ کی کمینٹری میں ذرا وقفہ ہوا تو ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے بوڑھے نے پوچھا۔ گجراتی آتی ہے؟ نہیں میں سر ہلایا تو وہ اداس ہو گیا۔ ساتھ بیٹھی یورپی خاتون بولیں۔ چھیالیس سال ہو گئے ہندوستان چھوڑے اور بیالیس ہماری شادی کو۔ ہم دنیا گھومنے نکلے ہیں . دونوں کو غور سے دیکھا تو وہ محنت کش ترک وطن پر لکھے کسی ناول کے مرکزی کردار لگے۔ رمز پھر بوداپسٹ کا قصہ لے بیٹھا تھا۔ بولا ہیرو سکوائر پر بس رکی تو بارش تھم چکی تھی۔ یہ ایک وسیع میدان ہے جس کے مرکزی ملینیئم ستون پر حضرت جبرائیل کا اور پیچھے نصف دائرہ بناتے محرابی ستونوں پر قومی ہیروز کے متحرک دکھتے شاندار مجسمے تعمیر کئے گئے ہیں۔ چوک کے ایک جانب کلاسیکی یورپی طرز کی عمارت کا فائن آرٹ میوزیم ہے جس میں قدیم مصری اور یورپی تاریخ کے نوادرات، رفائل، گویا اور ریمبران جیسے مصوروں کے شاہکار ہیں۔ بالکل سامنے یونانی مندر کی شکل کا پیلیس آف آرٹ ہے جو ایک عظیم نمائش گاہ ہے۔ فنون لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں ہردم جاری رہتی ہیں۔ سٹی پارک بھی ساتھ ہی لگا ہوا۔ ہنگری کی ایک ہزار سالہ تاریخ کی علامت ہے ہیرو چوک۔ کچھ مختصر احوال تاریخ کا بھی ؟ سوفی نے کہا ۔ پروفیسر بولے۔ جنگیں، بادشاہت، حملہ آور اور سیاست سب ہی موجود ہیں اس کہانی میں۔ یہ لوگ پہلے خانہ بدوش تھے۔ یورال پہاڑیوں سے اتر کر سردار ارپد کی قیادت میں نویں صدی میں یہ علاقہ فتح کیا۔ ہیرو اسکوائر اسی فتح کی یادگار ہے۔ سن ایک ہزار میں بادشاہ اسٹیفن نے اسے کیتھولک ریاست بنایا۔ پوپ نے تاج پوشی کی۔ تیرہویں صدی میں منگولوں نے حملہ کیا۔ آدھی آبادی موت کے گھاٹ اتری۔ بہت سے غلام بنے۔ بچی کچھی آبادی نے پتھریلے قلعے تعمیر کئے۔ منگولوں کا دوسرا حملہ ان قلعوں کی وجہ سے ناکام ہوا۔ سولوہیں صدی میں ترک حملہ آور ہوئے تو ملک تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ ہنگاریئن ،ہیبسبرگ اور ترک راج۔ مشترکہ زبان وادب نے تین سو سال بعد پھر سے ملکی وحدت کو بحال کیا۔ آسٹرو ہنگریئن بادشاہت میں امن اور استحکام ملا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا اور روس سے شکست کھائی۔ چوالیس سال تک کمیونسٹ روسی تسلط قائم رہا۔ آج ہنگری ایک آزاد جمہوریہ ہے۔ مجموعی تاثر کیسا ہے شہر کا؟ میں نے پوچھا۔ بولا۔ یورپ کے خوبصورت شہروں میں سے ایک۔ ڈینیوب کے کنارے بے مثل عمارتوں کو جس جدت اور فنکارانہ مہارت سے روشن کیا گیا ہے۔ پورے یورپ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں کی پارلیمینٹ بلڈنگ سے زیادہ حسین عمارت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ ہر سمت سے پریوں کا محل۔ چھ سو اکیانوے کمرے. سامنے کا رخ نوے مجسموں سے آراستہ ۔چالیس کلو سونے سے کی گئی اندرونی سجاوٹ اور اس قدر سیڑھیاں کہ اجتماعی مسافت بیس کلو میٹر۔ گوتھک طرز کی یہ عمارت انیس سو دو میں مکمل ہوئی تھی۔ اوپرا ہائوسز ،آرٹ گیلریاں، تھیٹر اور سو کے قریب میوزیم ۔ کوئی بہت انوکھی بات اس شہر کی؟ سوفی نے پوچھا۔ بولا. غاروں کے ایسے سلسلے جن میں گرم پانی کے قدرتی چشمے پائے جاتے ہیں۔ یہ دنیا کے کسی اور مرکزی شہر میں موجود نہیں۔ ستر کروڑ لیٹر پانی روزانہ سطح زمین پر آتا ہے ان چشموں سے جڑے حوض رومن زمانے سے اب تک بہت سے امراض کے لئے شفا سمجھے جاتے ہیں ۔۔۔۔جاری ہے