Skip to content
Home » Blog » Glasgow Say Dublin گلاسگو سے ڈبلن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیاسٹھواں انشا Glasgow to Dublin, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 66

Glasgow Say Dublin گلاسگو سے ڈبلن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیاسٹھواں انشا Glasgow to Dublin, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 66

Journey starts from the major mainline rail terminus in Glasgow, Scotland and passing through Belfast, takes us to the city of Bernard Shaw, James Joyce and Oscar Wilde. Happy listening!

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

گلاسگو سے ڈبلن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیاسٹھواں انشا، شارق علی
ٹرین کونولی اسٹیشن پہنچنے والی تھی. مسلسل سفر کرتے دس گھنٹے گزر چکے تھے۔ طالبِ علمی کا کنگلا زمانہ۔ سستا ٹکٹ، اسی لئے تھکن قبول۔ انکل پٹیل اسکاٹ لینڈ سے ڈبلن تک کا سفر یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ شام ڈھلے گلاسگو سینٹرل اسٹیشن سے ٹرین پکڑی۔ ایک سو چالیس سال پرانے اس اسٹیشن کی عمارت قابل دید ہے۔ شاہکار فولادی کام سے تیار شدہ کشادہ کنکورس۔ سات اونچے ستونوں پر قائم گنبد نما چھت کے نیچے پلیٹ فارم پر آتی جاتیں ٹرینوں کی چہل پہل، ٹکٹ گھر، ریستوران ، دوکانیں اور سفری اعلانات کا شور ۔ ٹرین اسکاٹ لینڈ  کے مغربی ساحلی قصبے ایر پر رکی  تو گاڑی بدل کر اسٹرانرار پہنچا۔ یہاں زمینی سفر ختم اور پی اینڈ او نامی کمپنی کی فیری میں بیٹھ کر سمندر عبور کیا۔ فیری میں سہولتیں مسافر بحری جہاز جیسی۔ ہچکولے لیتے ریسٹورینٹ میں فش اور چپس کھایا۔ عرشہ پر کھڑے ہو کر تیز رفتار فیری کے پیچھے بننے والی پانی کی سڑک کو چاندنی میں چمکتے اور ارد گرد کی لہروں میں گم ہوتے دیکھتے بیلفاسٹ پہنچے۔ کوئی ہنگامہ تو نہیں تھا وہاں؟ میں نے پوچھا. بولے۔ امن تو تھا لیکن فضا میں سیاسی تنائو کی کیفیت موجود۔ خاصا قدیم شہر ہے۔ نواح  میں کانسی کے دور کے آثار بھی ہیں. بحری جہاز ٹائٹینک بیلفاسٹ ہی میں تیار کیا گیا تھا. انیسویں صدی کے آخر میں کیتھولک روزگار کی تلاش میں اس پروٹسٹنٹ شہر میں آئے تھے. تب ہی سے فرقہ ورانہ کشیدگی جس کی بنیاد معیشت ہے جاری ہے. بیلفاسٹ سے پکڑی ٹرین ڈبلن کے کونولی سٹیشن پر آ کر رکی. اندر سے جدید سٹیشن کی سہولت اور بیرونی منظر اطالوی طرز کی شاندار رینیسیاں عمارت کا. ڈبلن ایک ہنستا بستا شہر ہے. دریا لفی بیچ سے گزرتا ہے اور اس پر قائم اوکونیل برج  اپنی چوڑائی اور لمبائی ایک سی ہونے کے باعث پورے یورپ میں منفرد ہے. اٹھارویں صدی میں یہ صرف رسیوں سے بنا پل تھا، پھر لکڑی اور ١٨٦٣ میں کنکریٹ سے تعمیر ہوا جو اب تک قائم ہے. او کونیل سٹریٹ سے گزر کر ٹرنٹی کالج اور پھر گرافٹن سٹریٹ کی سیر کی جائے تو شہر اور باسیوں کے مزاج سے سرسری تعارف ہو جاتا ہے. نوبل انعام یافتہ ادیب جارج برنارڈ شا ، یولیسس لکھنے والا جیمز جوائس اور آسکر وائلڈ اسی شہر کے باسی تھے. فٹ بال اور میخانوں کے دیوانے ہیں یہاں کے لوگ. بریزن ہیڈ نامی پب جو ١١٩٨ میں قائم ہوا پورے آئر لینڈ کا سب سے قدیم میخانہ ہے . ہمیں تو ٹرنٹی کالج  پسند  آیا. تعمیر ١٥٩٢ میں شہر سے با ہر ہوئی تھی لیکن شہر یوں پھیلا کہ اب یہ بالکل قلب میں ہے. کچھ آکسفورڈ اور کیمبرج کا سا انداز لیکن عاجزی کے ساتھ. پتھروں سے بنی قدیم عمارتیں اور دل نشین سبزہ زار………جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *