Skip to content
Home » Blog » Do Raastay دو راستے، سیج، انشے سیریل، آٹھواں انشاء The Road not taken, Sage, Urdu / Hindi Podcast Serial, Episode 8

Do Raastay دو راستے، سیج، انشے سیریل، آٹھواں انشاء The Road not taken, Sage, Urdu / Hindi Podcast Serial, Episode 8

Two roads diverged in a wood, and I—

I took the one less traveled by,

And that has made all the difference

Robert Frost

I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial

Listen, read, reflect and enjoy!

دو راستے، سیج، انشے سیریل، آٹھواں انشاء، شارق عل
گھنے جنگل میں خزاں رسیدہ درختوں کے نیچے لکڑی کی بینچیں نصب تھیں اور سامنے مختلف سمتوں کو جاتے دو راستے۔ پاس ہی پانی کا ہینڈ پمپ تھا اور ایک کوڑا دان بھی۔ فہم آباد بوٹینک گارڈن کے اس گوشے میں جنگلی ماحول کو محفوظ کیا گیا تھا۔ تیس ایکڑ پر پھیلے اس باغ میں سیر، ورزش، مزےدار کھانوں یا صرف سستی میں لیٹے رہنے کو بہت کچھ ہے لیکن آج کی پکنک میں نہ او رچڈ گارڈن کی سیر تھی۔ نا نباتاتی میوزیم میں بچوں کو بوٹنی سمجھا نے کے کمپیوٹر گیمز کا لطف، نا ہی فوڈ کورٹ کے چٹخارے ۔ آج دن بھر جنگل کی سیر تھی اور بس۔ ہم بینچوں پر بیٹھ گئے توسوفی نے سینڈوچز اور کوک سب میں تقسیم کئے ۔ پروفیسر گل بولے۔ یہ سامنے دو سمتوں کو جاتے راستے مجھے امریکی شاعر روبرٹ فروسٹ کی یاد دلاتے ہیں۔ سادہ زبان اور دہقانی منظر نگاری سے فلسفیانہ بات کہنے کا فن جاننے والا۔ چالیس سال کی عمر تک گمنام رہا  پھر چار پلٹزر انعام اور جان ایف کینیڈی کی صدارتی تقریب میں نظم پڑھنے کا اعزاز۔ وہ 1963 میں دنیا سے رخصت ہوا۔ وہی جس نے دی روڈ نوٹ ٹیکن لکھی تھی؟ صوفی نے پوچھا۔ بولے۔ ہاں وہی۔ فرض کرو جنگل سے گزرتا یہ ایک راستہ انفرادی خوشی ہو اور دوسرا مقصدیت، تو کون سا انتخاب دانمشمندی ہوگا؟ نظم کہتی ہے وہ راستہ جس پر کم لوگ چلے اور اسی سے فرق پڑے گا۔ بھئی زندگی اچھی گزرنی چاہئیے، راستا کو ئی سا بھی ہو۔ میں نے نیم دراز کاہلی میں خیال آرائی کی۔ پروفیسر بولے۔ اچھی زندگی کی ابتدا خود سے واقف ہونے سے ہوتی ہے۔ ان حالات و واقعا ت کی آگاہی سے جن میں ہماری شخصیت تشکیل پائی اور جو آج بھی ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی دیانتدارانہ کھوج ہمیں اپنے مقصد اور زندگی کی معنویت یعنی اپنے مشن سے ملوا دیتی ہے۔ خود سے تعارف گہری دوستی میں تب بدلتا ہے جب ہم اپنی خامیوں اور خوبیوں کو گلے لگا کر کھلے دل سے ضروری رد و بدل کر لیتے ہیں۔ اسی اندرونی ہم آہنگی سے زندگی کا سفر ہموار اور مستحکم ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے زیادہ تر لوگوں کے پاس اتنے غور و فکر کا وقت نہیں ہوتا ۔ وہ سامنے نظر آتی خوشی کےسراب اور پیچھا کرتے مسائل سے بچتے بچاتے زندگی گزارتے ہیں۔ ورنہ خود شناسی کا یہ سفر عمر کے کسی بھی حصے میں شروع کیا جا سکتا ہے۔ رمز نے کوک کا بڑا سا گھونٹ بھرا اور بولا۔ کیا آسان راستہ دشوار سے بہتر نہ ہوگا؟ پروفیسر بولے۔ آج کی سرمایہ دار طرز زندگی میں انفرادی خوشی کے تصور اور رائج طور طریقوں  کو قبول کر لینا۔ آسائش اور دکھاوے کی دوڑ میں شریک ہو جانا، یقیناً ایک آسان راستہ ہے۔ جبکہ اعتماد اور بھروسہ حاصل کرنا، با مقصد اور پر معنی زندگی گزارنا نسبتاً دشوار۔ یہ سچ ہے کے دونوں راستے بلا آخر اپنی منزل کو پہنچتے ہیں۔ قیمت یا تو فوری ادا کرنا ہوتی ہے یا بعد میں۔ ہو سکتا ہے آسان راستے کی منزل پچھتاوا، ناکام یا زخمی انسانی رشتے، اخلاقی ناکامی اور ادھورے پن کا احساس ہو۔ ہو سکتا ہے مشکل راستے کی قیمت زاتی انا اور مفاد کی فوری قربانی ہو۔ وہ محنت اور اصول پسندی کی مشقت کا مطالبہ کرے۔ لیکن وہ ہمیں اعتماد، بھروسے، معنویت اور اجتمائی انسانی مسرت کی سمت لے جائے ۔انسانی تاریخ میں ان گنت ہجوم آسان راستے کے مسافر رہے ہیں۔ لیکن جتنے بھی مصلحین گزرے، سب نے دشوار راستے کا انتخاب کیا تھا کیونکہ وہ اجتمائی مسرت کی منزل کے مسافر تھے۔ ہم سب کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئے۔ پھرپروفیسر بولے۔ اچھی زندگی دشوار راستے کا سفر ہے۔ بھاری قیمت چکانے کے لئے تیار رہنے کا سفر۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *