Khaliqdina hall is an important landmark in the history of Karachi. British authorities conducted a court trial here in 1921 against Maulana Muhammad & Shoukat Ali for civil uprising of Khilafat movement
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
کامریڈ، سیج، انشے سیریل، تیرہواں انشاء، شارق علی۔
ایم اے جناح روڈ کے تیز رفتار ٹریفک سے گزر کر کالج جاتے تو روز ہی نظر پڑتی۔ بیت بازی میں انعام ملا تو پہلی بار اندر سے دیکھا۔ اطالوی طرز کی بڑی سی عمارت۔ پیشانی پر درج تھا خالق دینا ہال۔ تعمیر 1906۔ پروفیسر گل کراچی کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ شہر کے لئے کھوجہ کمیونٹی کے ایک امیر شخص کا تحفہ تھا یہ۔ تینتیس ہزار روپے لا گت آئی تھی اس زمانے میں۔ شہرت کا عروج 1921 میں ملا جب محمد علی جوہر پر خلافت کانفرنس میں سول نا فرمانی اور ترکوں کی حمایت پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ سزا تو نہ ہو سکی بلکہ زورِ خطابت سے گونجنے والی عمارت پورے ہندوستان میں آزادی کے مطالبے کی علامت بن گئی۔ کون محمّد علی جوہر؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ پانچ سالہ یتیم جن کی ہندوستان آزادی کے لئے قا ئد انہ تربیت ان کی والدہ بی اماں نے کی۔ انگریز کی نفسیات کو سمجھنے، اس سے نبرد آزمائی کے لئے انہیں انگریزی تعلیم دلوائی۔ علی گڑھ سے وطن کا پیار اور علم کا جوش ملا، آکسفو رڈ سے قانون اور تاریخ کی اسناد لیں اور مدلل مباحثوں اور سیاسی زکاوت کا ہنر بھی سیکھا۔ تحریر اور خطابت پر عبور ان کی پہچان بنا۔ دل و ذہن دونوں کو فتح کرنا جانتے تھے وہ. ایچ جی ویلز نے لکھا تھا محمد علی کے پاس میکالے کا قلم ، برک کی زبان اور نیپولین کا دل ہے۔اور ان کا کارنامہ؟ رمز نے پوچھا۔ بولے۔ 1911 میں کلکتہ سے کا مریڈ اخبار نکالا۔ آزا دی کی تڑپ اور عوامی جذبات کی ترجمانی نے شہرت اور ہر دل عزیزی بخشی ۔ انگریز نے خوف زدہ ہو کر رام پور کی جائیداد ضبط کر لی۔ کا مریڈ بند ہوا اور قید کر دئیے گئے۔ رہا ہوئے تو پھر وہی آزاد روشی اور دوبارہ قید۔ اسیری زندگی کا معمول بن گئی ۔ ایک بار اسیری میں بیٹیاں بیمار پڑیں۔ انگریز نے معافی مانگنے کی شرط لگائی کہ ملنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ بی اماں نے خط لکھا کہ تم معافی مانگ لیتے تو ان بوڑھے ہاتھوں میں تمہارا گلہ گھوٹنے کی طاقت اب بھی موجود ہے۔ بیٹی کا انتقال ہوا تو تدفین میں شرکت کی اجازت نہ ملی تو بیٹی کی یاد میں نظم لکھی۔ پھر دہلی سے ہمدرد نکالا جس نے سلطنت عثمانیہ کے حالات سے عوام کو آگاہ رکھا۔ ترکی کا دورہ کیا اور ترک ساتھیوں اور فلسطین کی دل و جان سے حمایت کی۔ ان کے آخری ایام؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ بار بار کی قید خرابیِ صحت کا سبب بنی پھر بھی 1930 کی لندن گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور اپنی مارکتہ لاآ را تقریر میں کہا۔ یہاں آنے کا مقصد پروا نہ آزادی حاصل کرنا ہے۔ اگر یہ نہ ملا تو غلام ملک واپس جانا مجھے منظور نہیں۔ قول کا سچا لندن کے قیام ہی میں خالقِ حقیق سے جا ملا۔ مفتیِ اعظم فلسطین نے نماز پڑھا ئی۔ جسد خاکی مسجدِ اقصی کے پاس یرو شلم میں دفن ہے ۔ اب کیسا ہےخالقدینا ہال؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ اب تو بس نمائشوں یا طلباء تقریب کے لئے عام سا ہال ہے وہ۔ لکڑی کے کام والی چھت کو دیمک چاٹ چکی۔ ایک طرف اجڑی ہوئی لائبریری ہے تو دوسری طرف کسی این جی او کا دفتر۔ کے ایم سی نے 2002 میں کچھ آرائش کی تھی۔ پھر وہی بے سر و سامانی . وہ در و دیوار جو کبھی بولیں اماں محمد علی کی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو کے نعروں سے گونجے تھے۔ آج ویران اور بے حال ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔