Home » Blog » Budapest Kay Gul Baba بوڈاپسٹ کے گل بابا، سیج, انشے سیریل, بتیسواں انشاء Gul Baba of Budapest, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 32
Budapest Kay Gul Baba بوڈاپسٹ کے گل بابا، سیج, انشے سیریل, بتیسواں انشاء Gul Baba of Budapest, SAGE, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 32
Hungary’s capital Budapest bisects the River Danube and Chain Bridge connects the hilly Buda with flat Pest. On Mecset (mosque) Street, a short but steep walk from the Margaret bridge is the tomb of Sufi poet Gul Baba. Enjoy the trip!
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
بوڈاپسٹ کے گل بابا، سیج انشے سیریل بتیسواں انشاء، شارق علی۔
اتنی بلندی تک پہنچنے کی دو ہی صورتیں تھیں۔ یا تو طویل پیدل چڑہای کی
مشقت سے گزرتے۔ یا پھر ٹکٹ خرید کر کیبل کار میں سوار ایک منٹ کی عمودی
چڑھائی کے بعد بوڈا کاسل کے اس مقام تک پہنچتے جہاں سے بوڈاپسٹ پریوں کا
دیس دکھائی دیتا ہے۔ رمز ہنگری میں گزاری چھٹیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ بولا
کیبل کار بلند ہونا شروع ہوئی تو بل کھاتے ڈ ینیوب میں تیرتی کشتیاں، اسے
عبور کرتے دلکش پل، اور کناروں کے ساتھ بنی بے مثل عمارتیں لمحہ با لمحہ
دور اور چھوٹی ہوتی دکھائی دیں۔ شہر کے خوبصورت کوچہ و بازار اور مجسموں
سے آراستہ چوک نگاہوں میں وسعت پانے لگے۔ کیسا ہے بوڈا کاسل؟ میں نے
پوچھا۔ بولا۔ فنِ تعمیر کا حسن اور جاہ و جلال لئے ایک بے مثال عمارت۔
دریا ئے ڈینیوب کے کنارے پچاس میٹر بلند پہاڑی پر اس محل نما قلعے میں اب
کئی ثقافتی مراکز آباد ہیں۔ اس کی بنیاد چودھویں صدی میں کنگ لاجوس نے رکھی تھی
اور یہ پہلے رومن طرز میں تعمیر ہوا۔ یہ اب تک اکتیس بار مختلف حملہ
آوروں کے حصار میں رہ چکا ہے۔ بعد میں یہاں گوتھک طرز کے تعمیراتی اضافے
کئے گئے۔ بہت عرصے تک یہ پورے یورپ کا سب سے حسین محل شمار ہوتا رہا۔ اس
میں موجود مجسموں سے عیاں فنکارانہ مہارت کا بیان لفظوں میں زرا مشکل ہے۔
اور شہر کا نظارہ اس اونچائی سے؟ پروفیسر نے پوچھا۔ رمز بولا۔ قلعے کی
فصیل کے ساتھ بنی بیلکونی ڈینیوب سے پچاس میٹر اونچای پر ہے۔ ہم وہاں کھڑے
ہوئے تو مغرب کا جھٹپٹا تھا۔ رات گہری ہو چلی تو ڈینیوب عبور کرتے پلوں ،
کنارے کی عمارتوں اور تیرتی کشتیوں میں روشنیاں ایک ایک کر کے یوں
جگمگائیں جیسے کسی جشن کا اعلان اور والہانہ رقص کا آغاز ہوا ہو۔ دریائے
ڈینیوب کے کنارے صدیوں سے آباد بوڈا اور پیسٹ پہلے دو الگ شہر تھے۔
اٹھارہ سو تیہتر میں آسٹرو ہنگیرین بادشاہات میں دونوں کا ملاپ ہوا تو
یہ بوڈاپسٹ کہلایا۔ دریا پر بے حد شاندار پل تعمیر کئے گئے۔ پیسٹ میدانی
وادی میں بسا صنعتی شہر ہے اور بوڈا ہلکی پہاڑیوں پر آباد رومان انگیز
رہائشی بستی۔ اور ڈینیوب ؟ سوفی نے پوچھا۔ بولا۔ بل کھاتا ڈینیوب ان دو
شہروں بلکہ دو کیفتوں کے ہجر و وصال کی بہتی داستان ہے۔ یہ ایک رقص کرتا
دریا ہے۔ اس کے بہاؤ میں شوخی اور بھرپور ہونے کا احساس ہے۔ دریا
کے بالکل بیچ میں آنکھ کی شکل کا کوئی دیڑھ میل لمبا اور آدھا میل چوڑا
جزیرہ مارگرٹ آئلینڈ کہلاتا ہے۔ سر سبز و شاداب درختوں سے پر یہ شہر کے
ہنگاموں سے دور ایک پر فضا مقام ہے۔ یہاں یوں تو جاپانی گارڈن خوبصورت
آبشار،رنگین مچھلیوں سے بھرا حوض اور موسیقی بجاتا فوارہ بھی ہے لیکن اس
میں موجود گلابوں کا باغ گل بابا کی یاد دلاتا ہے۔ مشرقی یورپ کے ملک
ہنگری میں گل بابا؟ یہ کون تھے بھلا؟ سوفی نے پوچھا۔ رمز بولا۔سولہویں
صدی میں جب ترکوں نے اس شہر پر حملہ کیا تو لشکر میں اناطولیا کے صوفی
شاعر گل بابا بھی شامل تھے۔ پھر وہ یہیں آباد ہو گئے ۔ ان کے حسن عمل کا
کمال کے مقامی لوگوں میں ان کی شہرت ایک ایسے درویش کی حیثیت سے ابھری جو
گلابوں کا تحفہ لئے ان کے دیس میں آ ئے تھے۔ سولہویں صدی کے صوفی شاعر کا یہ مقبرہ آج تک عقیدتمندوں کے
لئے قابل احترام ہے. یہ آج بھی ہر دم گلابوں سے مہکتا ہے۔۔۔۔۔۔ جاری ہے