Soon a graphical representation Avatar will become our on line identity in the the forthcoming three dimensional virtual world. It might be more good looking and well behaved than our actual self
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
ایواٹار ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بہترواں انشا، شارق علی
رات گئے ایکس بوکس کھیل کر سویا تو ڈراونا خواب دیکھا.عجیب سی چٹانوں سے ڈھکی نامعلوم دنیا میں آدھے روبوٹ آدھے انسان قبیلے سے میری جنگ اور جیت کے بعد جھیل کے پانی میں دکھائی دیتا میری ہی شکل کا روبوانسان ایواٹارجو مجھے گھور رہا ہے. جاگا تو بد ن پسینے میں شرابور تھا. ہاتھ منہ دھو کر ناشتے پر پہنچا تو سب موجود. خواب کا احوال سن کردادا جی بولے. عجائبات تواب ہماری دنیا میں بھی کچھ کم نہیں. مثلاً ملاقات، دوستی، اختلاف، بحث اور مباحثہ حقیقی دنیا سے زیادہ انٹرنیٹ پر ہونے لگا ہے، دوستوں سے ملنا کم اور واٹس اپ اور فیس بک کا کھولنا زیادہ ہوتا ہے. ڈاکیا دن میں ایک بار اور ای میل مستقل آتی رہتی ہے. تم بھی آج کل سامنے کم اور انٹرنیٹ دنیا میں تحریر، آواز، تصویر یا ویڈیو گیم کے کسی کردار کی صورت زیادہ مصروف رہتے ہو۔ یانی آپا نے کہا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جلد ہی ممدو کا گرافیکل ہمزاد یا ایواٹار تین جہیتی انٹرنیٹ دنیا میں اس کی نمائندگی کر رہا ہو گا۔ بر وقت جواب دینے، دیکھنے، سننے، حتی کے چہرے کے تاثرات سے جذبات کا اظہار کرنے والا ایواٹار۔ انکل نے کہا۔ لفظ ایواٹار یا اوتار ہندو مذ ہب سے لیا گیا ہے۔ یعنی ایسا دیوتا جو عارضی طور پر انسان بن کر زمین پر اتر آئے۔ گویا ہمارے وجود کا ایک اور اضافی اور اگر ہم چاہیں تو ہم سے بھی زیادہ دیدہ زیب اور خوش اخلاق وجود جو انٹرنیٹ دنیا میں ہماری جسمانی غیر موجودگی کی کمی کو پورا کر سکے گا ۔ یوں رابطوں اور رشتوں کی نئی صورتیں بھی جنم لیں گی۔ میں نے پوچھا۔ کیا ایواٹار ٹیکنالوجی کا کوئی عملی فائدہ بھی ہوگا ؟ انکل بولے۔ تصور کرو کہ ایک ماہر ایواٹار ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھے کامیاب آپریشن کر رہا ہے۔ کوئی سپروائزر ایواٹار کارکنوں کے کام کی نگرانی میں مصروف ہے۔ یورپی ممالک اس ٹیکنالوجی پر بہت سی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے سامنے ممکنہ مالی فائدے ہیں۔ یانی آپا بولیں۔ موبائل فون کی ذمہ داریاں بھی تواب روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ رابطہ، بینک کے کام، نیویگیشن، کیمرہ، گھڑی، موسیقی، سوشل میڈیا پر ویڈیو تفریح وغیرہ تو ہے ہی، اب اسے نبض اور بلڈ پریشر کی کیفیت اور ہم سب کی صحت کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ دل بند ہونے کی صورت میں قریبی ہسپتال کو اطلاع دینا اوربجلی کا جھٹکا لگا کر دوبارہ دل دھڑکانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوچکا ہے۔ انکل بولے۔ کچھ برس بعد ایک بڑی تبدیلی بجلی اور پانی کی طرح ہر جگہ انٹرنیٹ کی دستیابی ہو گی۔ دوکانوں، بازار، بس اسٹاپ، حتی کے گھروں کی دیواریں بھی کمپیوٹر اسکرین کے طور پر استعمال ہو سکیں گی۔ گویا انسان ہر وقت انٹرنیٹ پر جڑا رہ سکے گا۔ آتے جاتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، بیچ میں ہم اور انٹرنیٹ چاروں طرف۔ میں نے کہا۔ خود سے چلنے والی کاروں کا کامیاب تجربہ تو گوگل کب کا کر چکا۔ ایسی کاروں کا عام ہونا بھی اب زیادہ دور نہیں۔ مزہ تو تب آئے جب ہم سب انفرادی پرواز کے قابل ہو سکیں اور بہت جلد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے