Home » Blog » Amn Ya Intishar امن یا انتشار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچہترواں انشا Peace or Chaos, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 75
Amn Ya Intishar امن یا انتشار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچہترواں انشا Peace or Chaos, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 75
In order to see how democracy and civil society works so successfully in Tenby, a small peaceful town of West Wales, and why it fails again and again in Pakistan, please find four minutes to listen to this story
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
امن یا انتشار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چوھترواں انشا، شارق علی
ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہجوم نعرے لگا رہا تھا. ہیلتھ یونٹ کی بندش نا منظور. گول پتھروں سے بنی چھوٹی سی سڑک کے ارد گرد جیورجین طرز کے مکانات، کیفے ، پھولوں اور تحفوں کی دکانیں اور بیچ سے گزرتا کوئی سو ڈیڑھ سو بوڑھوں ، بچوں اور جوانوں پر مشتمل یہ جلوس. نہ کوئی توڑ پھوڑ نہ خوف و ہراس. کاروبار حسب معمول جاری. مظاہرے سے زیادہ میلے کا سماں تھا. دادا جی ویسٹ ویلز کے تاریخی قصبے ٹینبی کا ذکر کر رہے تھے. بولے. ہمارا قیام قصبے سے باہر کیروان پارک میں تھا. چار بستروں کا سفید کیراوان ، چھوٹا سا کچن، لونگ روم، گیس، بجلی، پانی اور انٹرنیٹ بھی مہیا. نسبتاً اونچا ی پر واقع چھوٹا سا خوش باش قصبہ ہے ٹینبی . ایک جانب سنہری ریت کا پر سکون ساحل سمندر اور چھوٹی سی بندرگاہ میں کھڑی دلکش کشتیاں اور دوسری جانب سر سبز و شاداب وادی کا حسین منظر. سمندر کا پانی اتنا ٹھنڈا کے نہانے کی ہمّت نہ ہوئی. مجھے تو دور تک ساحل پر ٹہلنا اچھا لگا. پندرھویں صدی کے ٹیوڈر تاجروں کے گھروں کی سیر بھی کی جو اس قصبے کے سنہری دور کی یاد گار ہیں. جنگی اہمیت کی فصیل کی باقیات بھی دیکھیں. تعمیر کرنے والوں کی مہارت کا ثبوت ہیں اور نجانے کتنی بھولی بسری کہانیاں سمیٹے ہوۓ . ایک چھوٹا سا ریلوے سٹیشن بھی ہے وہاں. صفائی، منظم راہگیر اور ٹریفک، تہذیب اور شائستگی، قانون کی پاسداری اور تحفظ کا احساس بہت اچھا لگا. پھر ہمارے ملک میں اتنا انتشار کیوں؟ میں نے دکھی ہو کر پوچھا. انکل بولے. نام کی جمہوریت کا چوغہ پہنے ظالم جاگیر داری نظام، بد دیانت حکمران اور غیر متحرک سول سوسائٹی اس کی چند وجوہات ہیں. ایک ہی طبقہ مسلسل حکمران رہے تو جمہوری عمل پر اعتماد ختم اور مایوسی بڑھتی چلی جاتی ہے، حکومتی گرفت کمزور ہو تو مفاد پرستوں کا راج ہوتا ہے. دادا جی بولے. ٹینبی ہی کی مثال لے لو. ہر فرد مقامی اور ملکی مسائل اور سیاست میں حصّے دار نظر آیا. ایسا جمہوری رویہ جس میں برداشت، اعتدال پسندی اور ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے. نئی نسل کو اسکول میں تعلیم اور مباحثوں سے سیاسی قیادت کے لئے مسلسل تیار کیا جاتا ہے. درست معلومات کی عام آدمی کو فراہمی اور آزادی رائے حکومتی مفاد میں سمجھی جاتی ہے. معاشی ترقی کے لئے مسلسل کوشش اور تمام طبقوں کے لئے مساوی مواقعے کا اصول تسلیم کیا جاتا ہے. یانی آپا بولیں. ہم جیسے ملکوں سے انتشار کا خاتمہ تب ہوگا جب گلیوں اور محلوں کی سطح پر عام لوگوں کی شمولیت سے سچی جمہوریت قائم ہو جاے . اور موجودہ مفاد پرست اور جاگیر داری نظام کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا جاے ………..جاری ہے