Dada Ji explains that radical authoritarian approach is common in both religious extremism and fascism. Books and CDs burning in Islamabad are no different than similar ceremony in Natzi Berlin
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
آتش زن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، انانچاسواں انشا، شارق علی
موسلا دھار بارش تھمی تو سورج نے بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلنا شروع کی. سیر کو نکلے تو راستے کے ایک جانب لہلہاتے کھیت اور دوسری طرف گنگناتی ندی کے کنارے بھیگے ہوئے درختوں کی قطار تھی. آج یانی آپا بہت خوش تھیں. حقوق نسواں کا قانون جو پاس ہوا تھا. غصّے کی چلچلاتی دھوپ تو اس دن نکلی تھی جب ٹی وی پر لہو رنگ درگاہ کے خطیب کے اکسانے پر سینکڑوں سر ڈ ھکے مرد اور نقاب پوش عورتوں کو لادینی کتابوں اور سی ڈی جلاتے دکھایا گیا تھا. میں نے یاد دلایا تو بولیں. مجھے شدّت پسندی ناپسند ہے ممدو. مذہبی سوچ اور جذبات کو ایسی انتہائی حد تک لے جاناکے ساتھ بسنے والوں کا جینا محال ہوجائے، انسانی آزادی اور اخلاقی قدروں کی پامالی ہونے لگے، کیسے قبول کی جا سکتی ہے. دادا جی بولے. صرف جذبات پر مبنی عقل وفہم سے عاری سوچ پہلے مایوسی اور پھر تشدد اختیار کرتی ہے. ہر دور میں شدّت پسندی انسانی تباہی کا باعث بنی ہے. اور ہماری آج کی دنیا کے لیۓ یہ ایک بڑا خطرہ ہے. میں تو کہوں گا کہ یہ ایک نوعیت کا فاشسٹ رویہ ہے جو منطقی لحاظ سے کمزور لیکن اقتدار کے خواہشمند گروہ اختیار کر لیتے ہیں. فاشسزم کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے یہ اصطلاح ١٩١٩ میں اٹلی پر مسولینی کے اقتدار سے شروع ہوئی. اس ظالمانہ نظام میں صاحب اقتدار کی طاقت مرکزی اور عوام کی آزادی اور حقوق ثانوی حیثیت رکھتے ہیں. انسانی معاشرہ واضح اور سمجھ میں آنے والے اصولوں مثلا خوش حالی اور آزادی کے تحت تشکیل دیاجا سکتا ہے. مذہب فرد یا گروہ کی روحانی تسکین کا باعث تو ہے لیکن رضائے الہی کا تصور اور راستہ سب ذہنوں میں مختلف ہوتا ہے. کسی ملے جلے معاشرے میں مذہبی اصولوں پر اتفاق رائے نا تو ممکن ہے اور نہ ہی قابل عمل. لیکن لال درگاہ والوں کو کتابیں اور سی ڈی جلانے کی کیا سوجھی؟ میں نے پوچھا. بولے. تم تاریخی مثال سے بہتر سمجھ سکو شاید. جرمن شاعر ھینرک ہا ین نے ١٨٢١ میں کہا تھا. دیکھنا کتابیں جلانے والے بالآخر انسانوں کو جلائیں گے. صرف سو سال بعد ١٩٣٣ میں ہٹلر نے ایسی تمام تحریروں کو ضبط کرنے اور جلا دینے کا حکم دیا تھا جو اس کے قومی سوشلسٹ ایجنڈے کے خلاف تھیں. جرمنی اور آسٹریا کے شہروں میں عوامی جلسے کئے گئے جن میں یہودی، کمیونسٹ، امن پسند، اشتراکی اور آزاد خیال ادیبوں کی کتابیں جلائی گئیں. برلن کے محلےاوپرن پلاٹز میں فوجیوں اور طالب علموں کے جنونی جتھوں نے بیس ہزار کتابیں نظرآتش کیں جن میں ہیلن کیلر، ارنسٹ ہیمنگوے، کارل مارکس اور ایچ جی ویلز کی کتابیں شامل تھیں. فا شسٹ گروہ گھنائونے جرائم کے لئے اخلاقی اور مذہبی جواز تلاش کر لیتے ہیں. ان آتش زن جلسوں کو غیر جرمن روح کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا. آگ سے پاک کرنے کی تقریب کہہ کر مقدس بنایا گیا. گلی گلی اعلانات ہوتے. اخبارات اور ریڈیو پر اشتہارات دیئے جاتے. مرکزی چوک میں کتابیں جلانے کے بعد نعرے لگاتے ہجوم گلیوں میں پریڈ کیا کرتے تھے. پھر اس کے بعد ہٹلر کے اجتماعی انسانی قتل کے سنگین جرائم تو تمھارے علم میں ہیں ہی. تو ہوا نا کتابوں کی آتش زنی ایک فا شسٹ رویہ ……….جاری ہے