فارابی کی فکر ، سوچ کا سفر ، ٹک ٹوک اسکول ، شارق علی
وہ ہر نوعیت کے سوال اٹھانے اور ان کی کھوج میں کی گءی علمی جستجو کو اہم قرار دیتا ہے ۔ ایسا کرنے میں حایل ہر طرح کی رکاوٹ مسترد کر دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس نے مذہب کو حقیقت حال کی تمثیلی صورت کے طور پر سمجھا۔ اس کے خیال میں استدلال کو عقیدے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بعض مورخین کے خیال میں اس کا فکری تعلق اسلام سے ویسا ہی ہے جیسا کہ والتیر کا عیسائیت سے تھا۔ اس نے ” کتاب الموسیقی” تحریر کی اور آج تک عرب موسیقی پر ان اصولوبں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ موسیقی کو روحانی علاج اور شفا یابی کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ اپنی کتاب ” المدینہ والفضیلہ” میں وہ مثالی شہر کا نقشہ پیش کرتا ہے جیسا کہ افلاطون نے دی ریپبلک میں کیا تھا۔ اس نے مثالی شہر کی خصوصیات اور ان کی وضاحت میں مزید اضافے کیے۔ اس نے ریاست کے سیاسی معاملات پر مشورہ دینے کو فلسفیوں کی ذمہ داری قرار دیا. سماجیات پر اس نے تفصیل سے لکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ فرد اپنی ذات میں بھرپور علمی کمال حاصل کرنے کے قابل نہیں۔ اس کے لئے علم دوست سماج درکار ہوتا ہے ۔ انفرادی کوشش کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا ہنر ضرور سیکھنا چاہیے۔ یہ اشتراک ہی ہمیں علمی کمال تک پہونچا سکتا پے۔ وہ اپنی “کتاب الخطوط” میں منطق ، لسانیات ، ترجمے اور دیگر فنون و ادب کی اہمیت کے بارے میں لکھتا ہے۔ اس نے اپنے دور میں موجود سائنسی علوم کی فہرست اور ان کی وضاحتی تفصیل کتابی صورت میں لکھی۔ اس نے منطق کو لسانی علوم کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی اور میٹا فزکس کو قدرتی سائنسز سے زیادہ اہم قرار دیا۔