Skip to content
Home » Blog » ہمت اور امید کی علامت A symbol of courage and hope!

ہمت اور امید کی علامت A symbol of courage and hope!

Valueversity pays tribute and recognizes the contribution of human right and women`s activist Sabeen Mehmud. She is a symbol of courage and hope in Pakistan. Unidentified gunmen have recently assassinated her in a targeted shooting that also left her mother in intensive care

ہم خیال ویب سائٹ دیکھ رہا تھا کچھ دنوں پہلے تو پیس نیش کے صفحات دلچسپی سے دیکھے تھے میں نے . دو ایک جانے پہچانے ناموں میں چھپ گیا ہو گا یہ نام کہیں. ارادہ تھا کے کراچی گیاتو چاے ضرور پی جاے گی وہاں دوستوں کے ساتھ اس بار . کتابیں ڈھونڈی جائیں گی اور اگر کچھ ہو رہا ہوا تو بیٹھ جایں گے ہم بھی حاضرین میں کالج کے دنوں کی دانشوارانہ ٹھرک پوری کرنے کو. نہ تعارف تھا نہ ملاقات کا ارادہ

تعارف ہوا بھی تو اندوہناک خبر کی صورت . ملبوس پر جا بجا  تازہ خون کے غیر متوازن دھبوں جیسا . اسس عمر میں تو دیدہ زیب رنگوں کی تلاش میں صرف ہوتی ہے بیشتر ذہانت . بہت وکھری سوچ ہو گی کے رنگ پسند بھی آیا تو کفن کا سفید رنگ . امن کے سفید کبوتر سے میچ ہوتا ہوا. اب کوئی پیس نیش چلا بھی جاے تو اتیفاقاً بھی ملاقات ممکن نہیں . چلو دو چار کھلی ڈلی باتیں ہی کر لی جایں لگی لپٹی کے بغیر

بی بی یہ بتائیے کے نرگسیت میں گلے گلے ڈوبے اس  معاشرے میں جو الہامی نور سے پہلے ہی پر نور ہے ، آزادی فکر کو فروغ دینے کا احمقانہ خیال آیا کیسے آپ کے گٹ پٹ انگریزی ذہن میں ؟ کسی نے لکھا ہے آپ بہت پڑھی لکھی تھیں . میرا قیاس کہتا ہے کے بلکل بھی نہیں . لگتا تو یہ ہے کے آپ کی سوچ نہ تو درسگاہوں میں پڑھی جانیوالی اسلامیات اور معاشرتی علوم سے منور ہو سکی تھی اور نہ ہی نظریہ پاکستان کی سرکاری تقریروں سے فیضیاب . مشرقی روایات کا پروردہ سیدھا سادہ ذہین ہوتا آپ کا تو ٹی ٹوایف

کے بجانے مارننگ شو کی اینکر بن کے مذہب کا پر نور لبادہ ، سماجی شعور کا مہکتا دکھاوا ، انسان دوستی کا پر فریب بہلاوا اور شو بز کے شوخ رنگوں سے بنا گولہ گنڈا روزانہ پیش کر کے شہرت ، عزت ،دولت سبھی کچھ پا سکتی تھیں آپ بھی . ماما قدیر جیسے چپل چٹخاتے لوگوں کی ہم نوائی جہالت نہیں تو اور کیا ہے ؟خدا لگتی کہئے گا . پاکیزہ مذہبی اور قومی تشخص کے نظریاتی حامی اگر انصاف پر مسلسل اصرار کرنے والے مغرب زدہ سرپھروں سے آہنی ہاتھ سے نہ نمٹیں تو پھر اور کیا کریں ؟  اب بڑی سی جیوری ، تفصیلی مکالمہ اور زہر کے پیالے کے کھٹ راگ میں کون پڑے جب موٹر سوار ٹارگٹ کلر گلی گلی سستے داموں دست یاب ہوں تو

پیس ننیش میں بیٹھنے والوں میں ہے کوئی افلاطون جو اپنے مکالموں میں اس سوچ کو ہمیشگی بخش سکے ؟ مجھے تو لگتا ہے اس کہانی کا انجام بھی تاریک راہوں میں مارے گئے انگنت گمناموں کی طرح کراچی کے ساحل پر چلنے والی نرم ہوا اور رات کی تنہائی میں اترنے والی چاندنی میں زندہ و جاوید رہنا ہو گا . اسس شہر میں بکھری معصوم لہو کی بےنام یادگاروں میں آزادی، انصاف اور سچائی کے لئے پر اعتماد قربانی کے سرخ پھول بن کر مہکنا ہو گا . امید اور ہمت کی علامت بن کر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *