Skip to content
Home » Blog » کپتان ، چوتھا انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

کپتان ، چوتھا انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

  • by

کپتان ، چوتھا انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی ، شارق علی

برٹش ایئرویز کا بوئنگ طیارہ نیلی فضاؤں میں فادر کرسمس کے سفید بالوں جیسے بادلوں کے ٹکڑوں سے اٹھکیلیاں کرتا محو پرواز تھا۔ بحر اوقیانوس کے ٹھنڈے اور گہرے پانیوں سے پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر۔ جہاز کے وسیع کیبن میں موجود مختلف قومیتوں کے لوگ دنیا کی رنگا رنگی کا جیتا جاگتا منظر پیش کر رہے تھے۔ کپتان نے پرواز کے ہموار ہونے اور واش روم استعمال کر سکنے کی سہولت کا اعلان کیا تو مسافروں نے اطمینان کا سانس لیا۔ کرسٹوفر کولمبس بھی تو ایک کپتان تھا جس نے اسپین کی ملکہ ازابیلا کو غلط تاثر دیا تھا۔ اپنے آپ کو ماہر جہاز ران ظاہر کر کے۔ یہ درست ہے کے اسے کچھ آلات کی مدد سے سمندری راستوں کا تعین کرنا کسی حد تک آتا تھا ۔ اس نے بحری جہازوں پر چھوٹی موٹی نوکریاں بھی کر رکھی تھیں۔ کچھ کتابی علم بھی اس کے پاس تھا۔ لیکن وہ عام سی صلاحیت کا ملاح تھا اور بس۔ اب سے کوی چھ سو برس پہلے بحر اوقیانوس میں اس کے ماتحت تینوں جہاز ایک اندیکھے بحری راستے پر ایشیا کی کسی نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ جیسے جیسے مزید دن بلکہ ہفتے گزر رہے تھے ان جہازوں کا عملہ اس کے خلاف ہوتا چلا جا رہا تھا ۔ وہ خشکی نہ دکھای دینے پر سخت مایوسی اور غصے کا شکار تھے۔ یہاں تک کے ایک دن عملہ نے اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ پرواز کے ہموار ہوتے ہی پہلے تو فضای میزبانوں نے پریٹزل اور میری فرمایش پر سیب کے جوس سے تواضع کی۔ کوی دو گھنٹے کے بعد پورے جہاز میں سب سے پہلے ہمارے گروپ کو کھانا سرو کیا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کے خصوصی کھانے کی سہولت استعمال کرتے ہوے ہم نے حلال کھانے کی درخواست کی تھی۔ اور عملے کے لیے ہمیں سب سے پہلے فارغ کرنا آسان تھا۔ کولمبس کی مہم کی روانگی سے پہلے اسپین کی حکومت نے کولمبس سے بہت سے وعدے کیے تھے۔ ایک وعدہ تو یہ تھا کہ ایشیا کا نیا راستہ دریافت کرنے پر کولمبس کو سپین کی اشرافیہ یعنی ایلیٹ کلاس میں شامل کر لیا جائے گا۔ اسے اسپین کا سرکاری خطاب دیا جائے گا۔ یہ خطاب اس کی آنے والی نسلیں اپنے نام کے ساتھ استعمال کر سکیں گی۔ دوسرا وعدہ یہ تھا کے دریافت کردہ علاقوں سے جو بھی دولت حاصل ہو گی وہ اس کے دسویں حصہ کا حقدار ہو گا۔ اس کے عملے سے بھی اسپین کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جہاز کے عملے کا جو شخص سب سے پہلے ایشیا کی سرزمین دیکھے گا اسے زندگی بھر کے لیے وظیفہ ملتا رہے گا۔ جس کی موجودہ مالیت پندرہ سو ڈالرز ماہانہ کے قریب بنتی ہے۔ حکومت مستقبل کے سنہرے باغ تو دکھا رہی تھی لیکن مہم سے پہلے جو درکار تھا وہ سب کچھ دینے میں اسپین کی ملکہ کنجوسی سے کام لے رہی تھے۔ کیونکہ یورپ کی اقتصادی حالت ان دنوں بہت پتلی تھی. جبکہ اس ہوائی جہاز پر مسافروں کی صورت حال ذرا مختلف تھی . کھانے کی ٹرے دیکھ کر برٹش ایئرویز کی فیاضی اور باذوقی کا قایل ہونا پڑا۔ ایک بوکس میں کسکس اور ساتھ رکھے دو لیمب کے لمبوترے کوفتے۔ ایک جانب ٹماٹر کی چٹنی ، سایڈ ٹرے میں بینگن کی بھرتہ نما بے حد مذیدار سبزی۔ سلاد ، چیز کا ٹکڑا۔ اور دہی کا کپ اس کے علاوہ میٹھے میں چاکلیٹ پڈنگ جو اسٹرابری جیلی سے ڈھکی ہوی تھی۔ آخر میں حسب فرمایش چاے یا کافی۔ کھانے کے بعد کی غنودگی ایسی ہی تھی جیسے میں کسی بحری جہاز پر سوار ہوں۔…. جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *