رات کا پچھلا پہر تھا اور بیدل گہری نیند میں. ساتھ کی اسٹڈی میں رکھے بک شیلف میں ہنگامہ برپا تھا. جاتے ہوے کہتے ہو قیامت میں ملیں گے . کیاخوب ، کیا خوب کی گردان کرتے ہوے دیوان غالب نے ٹالسٹای کی جنگ اور امن کی فربہ جلد کو دونوں ہاتھوں سے بمشکل تھام رکھا تھا . سب کتابیں دونوں کے گرد جما ہو گیں تو دیوان ذوق ڈپٹ کر بولے ” مرزا اس لا یعنی غل غپاڑے کا سبب؟ مرزا نے ناگواری سے منہ پھیرا اور سکوت اختیار کیا. پھر معاملا فہم آگ کا دریا کے ماضی حال میں جھولتے جھلاتے دلکش استفسار پر کھلے. بتایا کے اگر وہ بروقت مداخلت نہ کرتے تو عالم مایوسی میں ٹالسٹای کا شاہکار سب سے اوپر کے شیلف سے نیچے خوش نما مچھلیوں کے ٹینک میں کود کر کب کا خود کشی کر چکا ہوتا. صبح تک اس کی لاش گیلے صفحوں کی لگدی بن چکی ہوتی . ایک لحاظ سے اس کی مایوسی بجا تھی . بیدل نے دو ایک دفع پڑھنے کی نیت سے اسے اٹھایا تو ضرور تھا لیکن پھر ہتھیار ڈالنے والے انداز میں واپس رکھ کر فیس بک کھول لیا تھا. یہ بے توجہی شیلف میں رہنے والی کم و بیش سب ہی کتابوں کی آزردگی کا سبب تھی اگر بس چلتا تو وو سامنے رکھے کمپیوٹر کو کریش کر دیتے . بیدل کا زیادہ تر وقت ان دنوں انٹرنیٹ پر گزرتا تھا
نسیم حجازی کی داستان مجاہد نے خود کشی کے لادینی روسی خیال پر پہلے تولاحول پڑھی . پھر کفر سے نظریں چار کیے بغیر جوشیلی تقریر کی . مجاہدو طاغوتی طاقتوں کا گٹھ جوڑ ہمارے عظیم ماضی سے خوفزدہ ہو کر کنڈل اور آئ بک جیسی گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے . یہ سر سے کفن باندھنے کا وقت ہے . برٹرنڈ رسل کی پرابلم آف فلسفہ نے اختلاف کیا اور معاملے کے غیر جذباتی عقلی حل پر زور دیا . منٹو کی” کھول دو” بولی جدیدیت کا تقاضا یہ ہے کے مطالے سے دوری کے نفسیاتی ار جنسی عوامل کو آشکار کیا جاے . میں اپنے ننے افسانے ” پیلی تلوار” لکھنے کا اعلان کرتا ہوں . تیس روپے ہیں کسی کے پاس ؟ فیض کی زنداں نامہ ذرا دیر سے پوہنچی . سگریٹ کا کش لگایا . پھر دھیمے تبسم کے ساتھ راکھ “بہشتی زیور ” کے قیمتی گرد پوش پر جھاڑی اور ٹھیرے ہوے لہجے میں کامریڈ ٹالسٹای کی طرف اشارہ کرتے ہوے حفظ ما تقدم مصرع پڑھا ” حلقہ کیے بیٹھے رهو اس شمع کو یارو”
اسی اثنا میں بیدل نے ساتھ کے کمرے میں کروٹ بدلی . عصمت چغتائی کی ” بدن کی بو ” کی نا قابل برداشت قربت کے باوجود سب کتابوں نے فوری صف بندی کر کے خاموشی اختیار کی