Skip to content
Home » Blog » میگھنا ، ساتواں انشا ، ناریل کا پانی ، انشے رپورتاژ ، شارق علی ، ویلیوورسٹی

میگھنا ، ساتواں انشا ، ناریل کا پانی ، انشے رپورتاژ ، شارق علی ، ویلیوورسٹی


وین ہموار سڑک پر رواں دواں تھی۔ اردگرد دور تک پھیلے سرسبز و شاداب فصلوں کے لہلہاتے میدانوں کی یکسانیت خواب آور ثابت ہوئی ۔ آپس کی بات چیت میں ایک وقفہ آیا اور ہم کچھ اونگھنے سے لگے۔ یکایک کھیتوں اور آبادی کے سلسلے ختم ہونا شروع ہوے۔ پہلے تو وین ارد گرد کے خودرو جنگلوں کے پاس سے گزری ۔ پھر دریا کنارے کے خد و خالِ دھیرے دھیرے ابھرنے لگے۔ ہم سب خاص طور پر میں جو پہلی بار میگھنا سے ملنے والا تھا زرا سنبھل کر باہر کا منظر بغور دیکھنے لگا۔ کھیتوں کے سلسلے اب نظر نہ آتے تھے۔ نرم مٹی کے میدانوں میں خود رو جنگلی جھاڑیوں کی جابجا بود وباش جیسے روایت سے باغی سوچ کی آزاد روشی۔ مچھیروں کی جھونپڑ بستیاں اور باہر مرمت ہوتی الٹای ہوی کشتیاں اور جال دکھای دینے لگے۔ پھر ہم ایک وسیع پل کی حدود میں داخل ہوے تو ایک کشادہ دریا سے تعارف کا آغاز ہوا. پل پر کچھ آگے بڑھے تو دریا کا پورا منظر کھل کر ہماری نظروں کے سامنے تھا ۔ایک عظیم دریا کی کشادگی اور بہتے سروں کی مترنم نغمگی نے مجھے مسحور کر دیا۔ میگھنا دریاؤں کے دیس بنگلہ دیش کا ایک شاندار اور بھرپور دریا ہے. بے آف بنگال میں اپنا سفر ختم کرنے سے پہلے بھولا کے مقام پر اس کا پاٹ بارہ کلو میٹر چوڑا ہو جاتا ہے۔ وہیں یہ دو اور دریاؤں کے ساتھ مل کر دنیا کا سب سے بڑا گنگا ڈیلٹا بناتا ہے. میں نے میگھنا کے حسن کی تعریف میں چند جملے کہے تو پروفیسر مشرقی دھیمے دھیمے مسکراتے رہے۔ پھر کہنے لگے۔ شاید سارے دلربا سنگدل بھی ہوتے ہیں۔ کم از کم میگھنا پر تو یہ بات بالکل ٹھیک بیٹھتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دھیمے سروں میں بہتا یہ دریا ہمارے ملک میں ڈوبنے سے ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ پھر مشرقی نے اس سلسلے میں کی جانے والی عالمی ریسرچ کے بارے میں ہمیں بتایا۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بکھری آبادیوں میں پہلے تو بچوں کو تیراکی کی باقاعدہ تعلیم دی گئی۔ پھر ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد یہ بات کامیاب ثابت ہوی کہ ایسی عملی تعلیم ڈوبنے سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ اس دوران ہم خاصے طویل پل کو عبور کر کے اور میگھنا کی دلفریبی کو الوداع کہ کر چند میل آگے آ چکے تھے۔ شاہین بھای نے منیرہ کی ہدایت پر وین کو کھانے کے وقفے کے لئے مین سڑک سے لگے بڑے سے ہوٹل کے سامنے موجود میدان میں اتار کر پارک کر دیا۔ یہ بنگلہ دیش کے معیار کے مطابق ایک شاندار ہوٹل اور ریسٹورنٹ تھا. کراچی کے لحاظ سے درمیانہ سا۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر واقع مین ڈائننگ ہال میں داخل ہوے۔ بیروں نے پھرتی کے ساتھ میزوں کو ملا کر ہمارے گروپ کے لیے انتظامات شروع کر دیے۔ کھانے کا آرڈر دینے میں منیرہ ، مشرقی اور روتھ پیش پیش تھے۔ میں اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے ہال کی گہما گہمی میں دلچسپی لینے لگا۔ ہر ملک کی انفرادیت نہ صرف وہاں کے لینڈ سکیپ بلکہ لوگوں کے لباس ، بول چال اور رویے سے جھلکتی ہے۔ اس کا بھرپور اظہار وہاں کے کھانوں سے بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد کی میزوں پر کچھ فیملیز کھانے اور آپس کی بول چال میں مصروف تھیں۔ چھوٹے بڑے کا احترام لیے پر اعتماد بے تکلفی کے ساتھ۔ مجھے بنگلہ دیش کے قیام کے دوران زیادہ تر بنگالی خاندانوں میں عاجزی ، سادگی اور عملیت پسندی دیکھنے کو ملی۔ بلا ضرورت کی بھرم بازی ، دکھاوے اور ہٹ دھرمی سے کم ہی سابقہ پڑا۔ بدقسمتی سے ایسے ناخوشگوار تجربات اپنے ملک میں اکثر دکھای دے جاتے ہیں۔ پھر کھانا چنا گیا۔ مچھلی ، سبزی ، دال اور چاول تو وافر لیکن گاے کا پسندے نما چھوٹی چھوٹی بوٹیوں والا بے حد مزیدار قورمہ ڈشوں کے بجاے چھوٹی پلیٹوں میں۔ شاید یہ سادگی اور کفایت شعاری وہاں کا معمول تھا۔ مقامی دوستوں نے نارمل انداز میں اسے قبول کیا۔ مجھے یہ کنجوسی کچھ عجیب سی لگی۔ لیکن میں نے تکلف سے کام لیا اور خاموش رہا۔ شنکر نے کھانے کے دوران بہت دلچسپ بات کہی۔۔ کہنے لگے کسی بھی ملک کے کھانوں میں اس کا جغرافیہ صاف جھلکتا ہے۔ بنگلہ دیش دریاؤں اور با افراط پانی سے سیراب کھیتوں کا ملک ہے۔ یہاں کی محبوب غذا یعنی مچھلی اور چاول ہر ضیافت میں موجود ہو تو یہ کوی حیرت کی بات نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کے ساتھ دالوں اور سبزیوں کا بھرپور استعمال یہاں کی غذا کو خاصا صحت مند بنا دیتا ہے۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *