لالچ ، ساتواں انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلیو ورسٹی ، شارق علی
رات دھیرے دھیرے اپنے بازو پھیلا رہی تھی۔ دونوں جانب کناروں پرلگی اسٹریٹ لائٹس نے شاہراہوں کو جگمگا رکھا تھا۔ ہم امریکہ کی ریاست میری لینڈ کے سب سے بڑے شہر بالٹی مور میں اپنے میزبانوں کے گھر کی جانب رواں دواں تھے۔ بالٹیمور میری لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے، یہ ایک بندرگاہ کے طور پر طویل تاریخ رکھتا ہے۔ بالٹی مور کے ہاربر کا علاقہ، نیشنل ایکویریم اور میری لینڈ سائنس سینٹر خصوصی شہرت کے حامل ہیں۔ خالو امریکہ کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے ہوے کراچی میں گزارے زمانہ طالب علمی کے خوشگوار دنوں کی باتیں کر رہے تھے۔ میں بھی کہیں کہیں کچھ جملوں کا اضافہ کر کے شامل ہو جاتا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے بچے صرف سننے اور مسکرانے پر اکتفا کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کرسٹوفر کولمبس کی بحری مہم میں زمین نظر آنے کے بعد جہاز کا وہ عملہ جو کولمبس کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا اچانک اس کی خوشامد کرنے لگا تھا۔ کہا سنا معاف کروانے لگا تھا کہ کہیں غصے میں ان کا نام کامیاب مہم کے انعام کے حقداروں میں شامل ہونے سے نہ رہ جاے۔ زمین پر پہلی نگاہ ڈالنے والے ملاح نے کولمبس سے پوچھا جناب میرا انعام تو مجھے ملے گا نا؟ کولمبس نے کہا کیوں نہیں۔ میں تو تمہیں اضافی پانچ ہزار سکوں کا انعام بھی دلواوں گا۔ پھر ہوا یہ کہ جس ملاح نے سب سے پہلے زمین دیکھی تھی اسے انعام نہیں ملا ۔ کیونکہ لالچی اور مفاد پرست کولمبس نے یہ انعام خود رکھ لیا۔ اس کا دعوی اور جواز یہ تھا کہ اس ملاح سے چار گھنٹے پہلے اس نے جو روشنی دیکھی تھی دراصل وہ ہی بعد میں زمین ثابت ہوی۔ ظاہر ہے وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ اس نے جو دیکھا وہ سراب تھا۔ بلکہ وہ تو ہمیشہ اس دھوکے ہی میں رہا کہ وہ ایشیا پہنچ چکا ہے۔ اسے بالکل علم نہیں تھا کہ وہ ایشیا نہیں بلکہ ہزاروں سال پہلے بچھڑی پرانی دنیا میں پہونچ چکا ہے۔ اس نے وہ بر اعظم دریافت کر لیا ہے جو گیارہ ہزار سال سے لاپتہ تھا۔ کوئی بیس سے پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد بعد ھماری گاڑی اپنی منزل ان ووڈ ایونیو پر جا کر رکی۔ یہ کوئی سو ڈیڑھ سو بے حد کشادہ گھروں پر مشتمل ایک آرام دہ اور خوشحال رہایشی کالونی چاروں جانب گھرے جنگلوں کو صاف کر کے تعمیر کی گئی ہے ۔ ہر گھر کے چاروں جانب گھاس سے ڈھکا کشادہ خطہ زمین ہے اور پھر ارد گرد لکڑی کی بنی خوبصورت چار دیواری۔ گھروں کے عقب میں کھیلنے کا سرسبز وسیع میدان ہے اور کنارے کے ساتھ ساتھ چلتی پیدل گذرگاہ۔ گیراج کا برقی دروازہ کھلا اور سامان اتارا گیا۔ استقبالیہ کمرہ بالکل سامنے تھا۔ یاسمین خالہ کے گھر میں داخل ہوے تو اندازہ ہوا کہ بیرونی تاثر کے ساتھ ساتھ اندرونی سجاوٹ بھی قابل تعریف ہے ۔ پھر یوں ہوا کہ کچن ڈائننگ ایریا کے گرینائٹ شیلف پہ رکھی تازہ پکای ہوی بریانی اور کوفتوں سے اٹھتی تازہ مہک نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ کھانا تو خیر تھا ہی لا جواب لیکن ساتھ رکھے قسما قسم کے پھلوں، مٹھائیوں اور دیگر لوازمات نے ہم تھکے ماندے مسافروں پر بے حد خوشگوار اثر ڈالا۔ نیا براعظم دریافت کر لینے کے اتنے بڑے کارنامے پر تو کولمبس اور اس کے ساتھیوں کو انسانی تاریخ میں ہیرو شمار ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ان کی لالچ اور مقامی لوگوں پر ان کی جانب سے ڈھاے جانیوالے ظلم کی وجہ سے انہیں آج اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کا ظالمانہ سلوک شاید کبھی نہ بھلایا جا سکے گا۔ معصوم مقامی لوگوں نے کولمبس اور اس کے ساتھیوں کا پر جوش استقبال کیا تھا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بظاہر مہذب نظر انیوالے نووارد لوگ وہاں کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگیں گے ۔ انہیں کیا معلوم تھا کے یہ لالچ میں اندھے لوگ ان کے دیس کو ایشیا یا جاپان سمجھ کر وہاں سونا تلاش کرنے کی غرض سے اے ہیں۔ انہیں انسانیت اور انسانی قدروں سے کوی سروکار نہیں۔کزنز کا آپس میں یوں گھل مل جانا اور قہقہوں بھری مسلسل گپ شپ بہت خوشگوار تھی۔ مذیدار کھانوں کی تعریف تو خیر انصاف کا تقاضہ تھا ہی لیکن اس پر تکلف اہتمام سے ہم مہمانوں نے بھی پورا انصاف کیا۔ اس دوران ٹی وی پر پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے ٹوئینٹی ٹوینٹی میچ کی جھلکیوں نے ماہرانہ تبصروں اور خوش گپیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھر چاے پی گئی ۔ رات گئے محفل کا اختتام ہوا اور ہم اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے۔۔۔۔۔ جاری ہے