Skip to content
Home » Blog » زندگی کا سفر ، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل ، دوسرا انشا Mystery of Life, Grandpa and me, Episode 2

زندگی کا سفر ، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل ، دوسرا انشا Mystery of Life, Grandpa and me, Episode 2

If you sometime wonder about the mystery of life, this story is for you.

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

زندگی کا سفر ، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل ، دوسرا انشا
جھیل میں ڈوبی ڈور جب تن کر فشنگ راڈ کو اپنی طرف کھینچنے لگی تو میں نے ماہرانہ جھٹکے سے پھنسی ہوئی چھوٹی سی سرمئی رنگ کی مچھلی کوکھینچا اور کنارے کی سبز گھانس پر گرا دیا . کچھ ہی دور دادا جی جو  درخت سے ٹیک لگانے کتاب پڑھنے میں مگن تھے یہ دیکھ کر پاس آ کھڑے ہوے . میری ہتھیلی پر مچھلی زور سے تڑپی . میری مہارت کی تعریف کے بعد دادا جی نے احتیاط سے پلاسٹک کا کانٹا تڑپتی ہوئی مچھلی کے حلق سے نکال لیا. پھر میں نے بخوشی اسے واپس جھیل میں پھینک دیا . پکنک کے اس عظیم ایڈونچرسے فارغ ہو کر ہم دونوں جھیل کے کنارے بیٹھ کر کباب پراٹھے سے لطف اندوز ہونے لگے.  میں نے کہا . اس مچھلی کے زندہ ہونے میں تو مجھے کوئی شبہ نہیں . لیکن آپ تو اس دن درخت کے تنے پر جمی ہوئی کائی کو بھی زندگی ہی کی ایک قسم کہ رہے تھے . دادا جی بولے . زندگی کا سفر بہت پر اسرار ہے . ایک نظریہ تو یہ ہے کے بنیادی عناصر سے بنے کاسمک شوربے پر گرنے والی آسمانی بجلی نے شاید ڈی این اے کی تعمیر کی ہو . وہ بنیاد جس پر تمام زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے . میں نے قابلیت جھاڑی . ڈی این اے وہی بڑا سا مالیکیول نا جس میں زندگی کی تمام تفصیل ایک انسائیکلوپیڈیا کی طرح محفوظ ہوتی ہے اور جو اپنے ہم شکل میں خود کو تقسیم کرلینے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟. دادا جی مسکراتے . بالکل ٹھیک. تو وہی  ڈی این اے تقسیم در تقسیم  ہو کر تین اعشاریہ آٹھ بلین سال پہلے زندگی کی سب سے ابتدائی صورت پرو کریوٹس بن کرہماری زمین پر نمودار ہوتا ہے. ایک خیال یہ بھی ہے کے زندگی کائنات میں کہیں اور شروع ہو کر شہاب ثاقب کی صورت زمین سے آ  ٹکرائی ہو . بحر حال انتہائی چھوٹے جراثیموں جیسے پرو کریوٹس سے شروع ہونے والا یہ سفر ایک اعشاریہ سات بلین سال پہلے پرو ٹیسٹا یا  درختوں پے جمی کائی اور صفر اعشاریہ پانچ بلین سالوں میں فنگائی کے وجود میں آنے تک پوھنچا . باقاعدہ پودے اور درخت چار سو اسی ملین سال پہلے نمودار ہوے . پھر زندگی کے سفر نے ایک نئی کروٹ بدلی اور پانچ سو اسی ملین سال پہلے بغیر ریڑھ کی ہڈی والے جانور اس کہانی کا حصہ بنے.  پھر پانچ سو پچیس ملین سال پہلے ریڑھ کی ہڈی والے جانوربھی زمین پر نظر آنے لگے . میں نے کہا . اس کا مطلب تو یہ ہوا دادا جی کے جراثیم ، درخت ، جانور اور ہم انسان یعنی زندگی کی تمام صورتیں ایک ہی نکتے اور ایک ہی لمحے سے شروع ہوتی ہیں . وہ بولے . تم نے درست سمجھا .  تحقیق یہی ثابت کرتی ہے . سائنسدان زندگی کی تمام  صورتوں کو خاندانوں میں تقسیم کرتے ہیں . یہ سچ ہے کے سب سے پہلے خاندان پرو کریوٹس سے شروع ہونے والا زندگی کا یہ سفر تین اعشاریہ آٹھ بلین سالوں میں درختوں ، جانوروں اور ہم انسانوں کے ذیلی خاندانوں میں تقسیم ہوا ہے —— جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *