Skip to content
Home » Blog » خلدونیہ ، ایک نامکمل خواب ، ابتدا سے اج کل ، انشے سیریل ، پچیسواں انشاشارق علی

خلدونیہ ، ایک نامکمل خواب ، ابتدا سے اج کل ، انشے سیریل ، پچیسواں انشا
شارق علی

  • by

خلدونیہ ، ایک نامکمل خواب ، ابتدا سے اج کل ، انشے سیریل ، پچیسواں انشا
شارق علی

ہم انڈر گراؤنڈ اسٹیشن سے باہر نکلے اور نیچرل ہسٹری میوزیم کا رخ کیے چلنے لگے۔ پروف کے دونوں جانب زن اور جیک تھے۔ کم کشادہ لیکن مصروف فٹ پاتھ کے احترام میں دو تین قدم پیچھے میں۔ اچانک سے میں نے خود کو بلا ارادہ زن کو کن انکھیوں سے دیکھتے پکڑا۔ اس احساس نے مجھے کچھ شرمندہ سا کر دیا۔ گہرے میرون رنگ کا دلکش کوٹ ، سنہری دھوپ میں سلیقے سے بندھے دمکتے بال سمیٹے تتلی نما کلپ ، سر سنگیت جیسے قدم بڑھاتے خوشرنگ جوگرز ، وقفے وقفے سے سنای دیتی جلترنگ ہنسی ، پھولدار چھتری تھامے نازک ھاتھ۔ دیکھنے کو وہاں تھا بھی بہت کچھ۔ زن مجھ میں ہوتی رم جھم بارش کے جھمیلوں سے بے نیاز، پروف سے گفتگو میں مصروف رہی۔ آج پروف کے لندن قیام کا آخری دن تھا۔ ہم سب بظاہر نارمل لیکن اندر سے اداس تھے۔ پروفیسر اقبال احمد ( بہار 1933 سے اسلام آباد 1999) پاکستان اور امریکہ دونوں میں بائیں بازو کے ممتاز ماہرین تعلیم میں سے ایک ہیں۔ ان کی سوچ عسکریت پسندی، ظالمانہ بیوروکریسی ، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو اور نظریاتی شدت پسندی کی سخت مخالف رہی ہے۔ وہ جمہوریت اور خود ارادیت کے مضبوط ترین حامی ہیں۔نیوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور ہاورڈ زن جیسے دانشوروں کے ساتھ امریکی سامراج کے خلاف مزاحمتی تحریک کے سینئر رکن رہے۔ چلتے چلتے ہم نے موڑ کاٹا تو نیچرل ہسٹری میوزیم کی محل نما عمارت ہمارے بالکل سامنے تھی۔ لندن کی علامات میں سے ایک۔ قدرتی تاریخ کے نوادرات کا خزانہ سمیٹے یہ میوزیم ساؤتھ کینسنگٹن میں واقع تین بڑے عجائب گھروں میں سے ایک ہے، سائنس اور وکٹوریہ البرٹ میوزیم بھی قریب ہی ہیں۔ یہ عمارت رومنسک فن تعمیر کی شاندار مثال ہے۔ آرکیٹیکٹ الفریڈ واٹر ہاؤس نے عمارت کے بیرونی رخ کو لندن کی آب و ہوا کے مطابق ٹیراکوٹا سے بنایا ہے۔ اندر نازک پودوں اور قدیم زیورات جیسے نوادرات تک کے محفوظ مظاہرے کا انتظام ملحوظ رکھا ہے۔ اس نے سوچا تھا میوزیم مفت اور سب کے لیے قابل رسائی ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں مسلسل ہوتی نئی دریافتوں کی نمایش کے لیے عمارت کا کشادہ ہونا ضروری ہو گا۔ جیسے ڈپی دی ڈپلوڈوکس (Diplococus) ڈایناسور کی نمایش ممکن بنانے کے لیے بہت کشادہ ہال۔ گویا اس نے میوزیم نہیں بلکہ ‘فطرت کے مظاہرے کے لیے ایک نوعیت کا کیتھیڈرل’ تعمیر کیا ہے۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر مرکزی ہال میں داخل ہوے تو عمارت کی اندرونی کشادگی اور حسین طرز تعمیر کا بھرپور احساس ہوا۔ راہداریوں میں چلتے پھرتے نوادرات دیکھتے میں سوچنے لگا۔ آخر کیوں پروفییسر اقبال کو مسلم دنیا میں وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ حقدار تھے؟ انہیں ایک کمیونسٹ کہ کر رد کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ درست نہ تھا۔ وہ بائیں بازو کے ایک سیکولرسٹ تھے جس نے مغربی سامراج کی زندگی بھر مذمت اور بھرپور تنقید کی۔ ایک محب وطن پاکستانی جنہیں اردو ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ ڈان اخبار میں باقاعدگی سے کالم لکھا کرتے تھے۔ ایک امریکی کالج میں عالمی سیاست کی تعلیم دینے سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے تیرھویں صدی کے مشہور مسلم اسکالر عبدالرحمٰن ابن خلدون کے نام پر پاکستان میں ’خلدونیہ‘ کے نام سے ایک آزاد یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔لیکن اس منصوبے کے لیے جو زمین مختص کی گئی تھی اس پر بعد میں بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری نے مبینہ طور پر کنٹری کلب اور گولف کورس کے لیے قبضہ کر لیا تھا۔اپنے ہم عصر دانشوروں کے مقابلے میں وہ ایک شاندار مقرر تھے۔ وہ انٹرویو لینے اور دینے کا ہنر جانتے تھے۔ مسلمان ہونے کے ناطے مغرب میں ان کی پذیرائی کا کم ہونا سمجھ میں آتا ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے وہ مسلم دنیا کی تنگ نظر توقعات پر بھی پورا نہ اتر سکے۔ وہ آج رخصت ہو رہے ہیں لیکن ہم طالبعلموں کے دلوں میں ان کی جلای شعورمندی کی شمع تادیر روشن رہے گی۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *