Imperialism in pre-partition India at times seems merely a puppet show. British were using local army, maharajas and local bureaucracy as puppets to rule the common people
کٹھ پتلی کا کھیل ، سامراج ، انشے سیریل ، پانچواں انشا ، شارق علی
پہلی بار اچھن میاں کی شادی پر یہ تماشا دیکھا تھا . قناتیں یوں تانی گئیں تھیں کہ مردانہ زنانہ الگ الگ لیکن لکڑی کی چوکی کا قالین ڈھکا چھوٹا سا سٹیج سب کی نظروں کے سامنے . بانو امی رمز کو کٹھ پتلی کے تماشے کا احوال سنا رہی تھیں. بولیں . پیچھے گہرے رنگ کا بڑا سا پردہ. اور سامنے لال پیلے سبز رنگوں کے بھڑکیلے کپڑے پہنے روئی بھرے جسم اور بڑی بڑی آنکھوں والی کٹھ پتلیاں، جن کے چھوٹے چھوٹے لکڑی کے ہاتھ پیر جو رسیوں سے بندھے پردے کے پیچھے نظر نہ آنے والے مداری کے اشاروں پر ناچ رہے تھے . تماشادکھانے والا مسلسل بولتا اور کہانی آگے بڑھاتا رہتا. اس کا ساتھ ڈھولک اور ڈگڈگی سے دیا جاتا . کچھ مکالمے بہت پتلی آواز میں کٹھ پتلیاں بھی بولتیں جو بولی کہلاتی تھی. لیکن ان کی وضاحت بھی مداری ہی کرتا . بروقت موسیقی، بیچ بیچ میں بچوں کے ہنسنے کی آواز، تالیاں ، داد اور تحسین کا شور. ہم سامنے بیٹھے لوگ کسی اور ہی دنیا اور زمانے میں چلے جاتے . کٹھ پتلیوں میں مختلف کردار ہوتے تھے . کچھ حسین اور معصوم، کچھ چالاک اور زہریلے. کچھ شجاع کچھ سازشی، ظفر بھای نے بتایا کہ تماشا دکھانے والے جاجمنی کہلاتے ہیں اور راجھستان سے آئے ہیں ، یہ خانہ بدوش مغل بادشاہوں کے دور سے یہی کام کرتے ہیں. اس رات یوں تو بہت سی کہانیاں سنیں لیکن شاہجہان کے زمانے کے امر سنگھ راٹھور کا قصہ سب سے زیادہ دلچسپ لگا. کہیں کہیں سنجیدہ باتیں بھی تھی مگر اکثر کھلکھلا کر ہنسنے والی صورت حال. صبح کو جاگے تو جاجمنی اپنا سامان لپیٹے سمیٹے جانے کہاں جا چکے تھے . پروف بولے . ہندوستان کی سیاست ان دنوں کٹھ پتلی کا تماشہ ہی تو تھی . ہندوستان کے راجہ مہاراجہ انگریز سرکار سے کیے معاہدوں سے خوش نہیں تھے. بھرم قائم تھا اور محلات بھی لیکن انھیں مقامی سیاست میں کوئی طاقت حاصل نہ تھی. سارے فیصلے انگریز سرکار کے تھے . کوشش کر کے انہوں نے کچھ ایسی گنجائشیں ضرور نکال لیں جن کی بنیاد پر وہ اپنے عوام سے جڑے رہے۔ اور یوں ہندوستان کی مقامی سیاست پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی۔ گویا امپیریلزم ایک ڈرامہ تھا . ایک بظاھر خود اعتمادی جس کے تحت حاکمیت قائم تھی حالانکہ اصل طاقت مقامی طور پر قائم کی گئی فوج ، مقامی با اثر لوگوں اور دیسی بیوروکرسی کا نظام تھا . جسے انگریز شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کر رہا تھا . انگریز نے خود اعتمادی سے بھرپور یہ کٹھ پتلی کا تماشا نہ صرف ہندوستان بلکے دنیا بھر کی کم ترقی یافتہ اقوام کی عوام کے سامنے دکھایا. اس شعبدہ گری میں عظیم الشان عمارتوں اور لندن کے تھیٹروں کی طرز کے جاہ و جلال سے بھرپور لباس اور تقریباتی شان و شوکت کا بھی بھرپور عمل دخل رہا . انگریز ماہرین تعمیرات نے پورے ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں مقامی وسائل استیعمال کر کے ایسی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کیں جنہیں دیکھ کر سادہ لوح عوام پر ہیبت طاری ہو جائے. ایسی عمارتوں میں سے ایک عمارت کلکتہ کے گورنمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ ہے جو انگریز کے ابتدائی اقتدار کے زمانے میں مرکزی اہمیت کی حامل رہی۔ یہ آج بھی وہاں کی مقامی حکومت کی مرکزی عمارت ہے۔ جب یہ عظیم الشان عمارت اٹھارہ سو تین میں تعمیر کی گئی تو اس مرکزی عمارت میں اور اس کے علاوہ تقریبا ساڑھے چھ ہزار انگریز پورے ہندوستان کی تقریبن بیس کروڑ آبادی پر حکمرانی کرتے تھے. ذرا سوچو صرف ساڑھے چھ ہزار انگریز اور دور تک پھیلے ہوئے وسیع علاقے میں بسے بیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ہندوستان پر قابض رہے . کیا یہ بات کسی جادوئی شعبدے سے کم ہے۔ اسی صورتحال کو بیان کرنے کے لئے ایک انگریز اہلکار نے کہا تھا کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب اگر ہر ہندوستانی صرف ایک مٹھی ریت اٹھا کر ہم انگریزوں پر پھینک دیتا تو ہم ساڑھے چھ ہزار انگریز اس ریت کے تلے زندہ دفن ہو جاتے—– جاری ہے