How vast is our Universe? Is it only a universe and not a multi-verse bubbling like a bubble bath? Who knows! But even what we know about cosmos is exhilarating, exciting and seemingly unbelievable
کوسمک ببل باتھ ، فکر انگیز انشے ، شارق علی
میری عمر کو ئی بارہ برس کی ہو گی جب ٹیلیویژن پر دکھائی جانے والی ایک دستاویزی فلم نے مجھے مسحور کر دیا تھا . نام تھا کوسموس اور پیشکش تھی کارل سیگن کی . میرے لیے یہ محض فلم نہیں بلکہ نئی دنیائوں کی سمت ایک حیرت انگیز سفر کا آغاز تھا . آج اتنی زندگی گذر جانے کے بعد اور اتنے بہت سے عملی تجربات اور مطالعہ کے باوجود میں اس سوال کے جواب کی تلاش میں کہ کائنات کتنی وسیع ہے آج بھی اپنی حیرانی اور اپنے تجسس کو بچپن ہی کی طرح تروتازہ محسوس کرتا ہوں ۔ ہم سب کو کسی نہ کسی طو ر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری کائنات بہت وسیع ہے لیکن اس کی عظیم الشان وسعت کا مکمل اندازہ لگانا ہم میں سے کسی کے بس میں نہیں۔ آئیے ایک مختصر سا سفر کرتے ہیں اس سوال کی سمت میں کہ ہماری کائنات کس قدر وسیع ہے؟ شاید سادہ لفظوں میں ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا کائنات کی لا محدود وسعتوں میں ہم کسی ایسے مقام تک پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں ہمارے سامنے ایک دیوار ہو اور اُس پر لکھا ہو یہاں سے آگے داخلہ منع ہے. پھر ایسے کسی مقام تک پہنچنے کے بعد ہم اپنے ذہن کو یہ بات سوچنے سے کیسے باز رکھ سکیں گے کہ آخر اس دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ اور کہیں معاملہ ایسا تو نہیں جیسا منیر نیازی نے کہا تھا ع اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو– میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا. ہم اس بات کو شاید ایک مثال کی مدد سے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں. ذرا دیر کے لیے تصور کیجیے کہ ہم کولمبس سے پوچھیں کہ کیا ہماری یہ دنیا لامحدود ہے یا کسی مقام پر پہنچ کر اس کا اختتام بھی ہوتا ہے ؟ سمندر میں مسلسل سفر کرتے رہنے کے بعد کوئی ایسا مقام کہ جہاں ایک عظیم الشان آبشار ہو اور جہاں سے اچانک ساری چیزیں نیچے کی طرف گرتی ہوں. ہماری دنیا کا آخری مقام ۔ اُس زمانے کی انسانی سمجھ اور سائنسی معلومات کے تحت کولمبس شاید ہماری اس بات کا کچھ یوں جواب دے گا. بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری یہ دنیا لامحدود ہے ۔ اگر ہم کسی ایک مقام سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو شاید ہم تما م عمر سفر کرتے رہیں اور کبھی بھی اس اختتامی آبشار تک نہ پہنچ سکیں گے ۔ کولمبس کا دیا ہوا یہ جواب اپنے طور پر بالکل درست ہو گا کیونکہ وہ اپنے سمندری جہاز میں بیٹھ کر صر ف دو ڈای منشن میں اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے. لیکن یوری گگارین کے لیے کہ جو ہماری انسانی تاریخ کا پہلا خلانورد تھا اس سوال کا جواب آسان ہے ۔ وہ اپنے خلائی جہاز میں بیٹھ کر چکر لگاتی ہوئی فٹ بال نما دنیا کو دیکھ سکتا ہے، اُس کے محدود ہونے کی تصدیق کر سکتا ہے ۔ تو کیا کائنات کی صحیح وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں چوتھے ڈائی منشن میں جانے کی ضرورت ہو گی ؟ اور کیا یہ ہمارے بس میں ہے؟ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اس امکان کو درست سمجھیں کہ ہم جس کائنات میں بستے ہیں وہ ایک تین ڈائی منشن والا بلبلا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے اندر رہتے ہوئے وہ ہمارے لیے لا محدود ہو گی ۔لیکن اس بات کو بھی خارج از امکان نہیں سمجھا جا سکتا ہے کہ ہماری کائنات واقعتا اور حقیقتاً لامحدود ہے. اس موجودہ لمحے میں بہترین سائنسی تحقیق بھی ہمیں اس سوال کا جواب فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن وہ باتیں جو ہمارے سائنسدان بہت اعتماد کے ساتھ ہمیں اپنی کائنات کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ وہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں . مثلاً یہ بات آج اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہماری کائنات تیرہ اعشاریہ سات بلین سال پرانی ہے اور اس اندازے میں صرف ایک فیصد غلطی کا امکان ہے۔ ہماری اس کائنات میں ایک سو پچیس بلین سے زیادہ گلکسیس یا کہکشائیں موجود ہیں اور ان کا چوہتر فیصد حصہ ڈارک انرجی پر مشتمل ہے ۔ بائیس فیصد ڈارک میٹر پر مشتمل ہے اور کائنات کا صرف چار فیصد حصہ مادی وجود رکھتا ہے یعنی ایٹم سے بنا ہو ا ہے. تقریباً چودہ بلین سال پہلے جب ہماری اس کائنات کا آغاز بیگ بینگ کے ذریعہ سے ہو ا تو پہلے پہل یہ صرف ( توانائی کی ایک صور ت تھی. ستاروں اور کہکشاؤں جیسی مادّی صورت حال تک پہنچنے کے لیے اُسے ایک بلین سال تک انتظار کرنا پڑا ۔ صرف ہماری کہکشاں میں جسے ہم ملکی وے کہتے ہیں دو سو بلین ستارے موجود ہیں ۔ ہمارے سورج کو قائم ہوئے تقریباً پانچ بلین سال ہو چکے ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ پانچ بلین سالوں میں اختتام پذیر ہو جائے گا ۔ہماری یہ دنیا کہ جس میں ہم رہتے ہیں اور بستے ہیں صرف ساڑھے تین بلین سال پُرانی ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہماری اس دنیا میں زندگی کی تمام صورتوں کا اختتام اگلےدو بلین سالوں میں ہو جائے گا ۔ بگ بینگ سے لے کر آج تک ہماری یہ کائنات مستقل وسعت اختیا ر کررہی ہے اور ہر سیکنڈ میں اس کی وسعت میں پچپن سے اسی کلومیٹرز کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ سائنسدان اتنے وثوق سے یہ سب دعوے کیسے کر سکتے ہیں۔ یوں تو اس کی ایک وجہ ریاضی اور تھیوریٹیکل فزکس میں ہماری شاندا ر کامیابیاں ہیں کہ جو اس موجودہ صدی میں ممکن ہو سکیں۔ انسانی تاریخ میں ایسی ترقی کی کوئی مثال اس سے پیشتر نہیں ملتی. لیکن ان اندازوں کے معتبر ہونے میں حبل ٹیلیسکوپ کا بھی بڑا حصہ ہے ۔ حبل نامی یہ سپیس ٹیلیسکوپ انیس سو نوے میں خلائی شٹل کی مدد سے خلائی مدار میں بھیجا گیا اور یہ اپنے اعلی ترین اور پیچیدہ نظام اور انفرا ریڈ کیمرے کے ذریع ہمیں ایسی معلومات فراہم کر تا ہے کہ جن تک پہنچنا ہمارے لیے اس سے پہلے ناممکن تھا ۔ کیونکہ یہ ٹیلیسکوپ ہماری زمینی فضا کی حدوں سے باہر واقع ہے اس لیے یہ انتہائی واضع اور بہت دور تک کی تصویریں لینے کے قابل ہے ۔ یہ عظیم سائنسدان ایڈون حبل کے نام سے منسوب ہے جس نے ۱۹۲۰ء میں یہ دریافت کیا تھا کہ ہماری ملکی وے سے باہر بھی ان گنت کہکشائیں موجود ہیں. بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بیگ بینگ جو ہماری کائنات کے وجود میں آنے کا سبب بنا کوئی تنہا واقعہ نہیں بلکہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے بہت سے بگ بینگ بہت سی کائناتوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے ہوں. گویا مکمل حقیقت ایک کائنات نہیں بلکہ بہت سی کائناتیں ہیں . ایک ایسے ببل باتھ کا تصور کیجیے کہ جس میں بہت سے بلبلے بنتے چلے جارہے ہیں اور کہیں کہیں ان میں بھرپور اضافہ دیکھنے میں آتا ہے لیکن کسی کسی مقام پر بہت سے بلبلے آہستہ آہستہ سکڑتے اور غائب بھی ہوتے جا رہے ہیں ۔ اگر ہماری کائنات کے علاوہ بھی دوسری کائناتیں موجود ہیں تو کیا اُن کے کائناتی اصول ہماری موجودہ فزکس کے اصولوں سے مختلف ہیں ؟ اور پھر اس بات کا بھی تو امکان ہے کہ اس ملٹی ورس کائناتی نظام میں ہماری کائنات کے تین ڈای منشن کے بالکل قریب ہی شاید صرف ایک ملی میٹر کے فاصلے پر ایک دوسری کائنات بھی موجود ہو مگر اُسے دیکھنا یا اُس تک پہنچنا ہمارے بس میں نہیں کیونکہ ہم چوتھی ڈای منشن کا شعور نہیں رکھتے ۔ مختصراً اگر ہم اکیسویں صدی کے سائنسدانو ں کے لیے چیلنجز کو بیان کریں تو شاید وہ ان دو سوالوں پر مشتمل ہوں گے ۔ کیا بگ بینگ اور ہماری کائنات کا وجود اور قیام کوئی تنہا واقعہ تھا؟ اگر ایسے کئی بگ بینگ اور کئی کائناتوں کا قیام ہوا تھا تو کیا ان میں موجود فزکس کے اصول ایک ہی ہیں یا ایک دوسرے سے مختلف ؟ ان فکر انگیز سوالوں کے ساتھ ہی آپ سے اجازت ——- ویلیو ورسٹی، شارق علی