Doctor Tetsu Nakamura was targeted and killed in Afghanistan earlier this month. Valueversity pays him tribute by telling you his story
کاکا مراد ، دنیا گر ، انشے سیریل ، نواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
پیدا تو وہ انیس سو چھیالیس میں جاپان کے قدیم شہر فکوکا کے خوبصورت مرغزاروں میں ہوا تھا۔ لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کے اس نے محبت افغانستان کے بے آب و گیاہ ویرانوں میں بسنے والے جنگ اورقحط زدہ لاچار انسانوں سے کی ۔ وہ مظلوم لوگ جنہوں نے ٹیٹسو ناکا مورا کی جاپانی شناخت ہوتے ہوئے بھی اس پشتو بولتے اور افغان لباس پہنے انسان دوست کو کاکا مراد کہ کر اپنا لیا۔ افغان حکومت نے اسے اپنا اعزازی شہری بنا لیا. انسان دوستی میں دیوانہ ایسا کہ بنجر ویرانوں کو دریاے کنر سے نہریں نکال کر لہلہاتی فصلوں میں تبدیل کرنے کی جد و جہد میں اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کی ۔ چار دسمبر دو ہزار انیس کو دو گاڑیوں میں گھات لگائے افغان لباس پہنے سات منتظر نامعلوم مسلح افراد نے دو طرف سے امدادی قافلے کو روکا جس کی پہلی گاڑی میں وہ سوار تھا . پھر کاکا مراد کے جسم میں بہت نزدیک سے خودکار ہتھیاروں کی پانچ گولیاں اُتار دی گئیں ۔ ساتھ بیٹھا ڈرائیور اور تین محافظ بھی زد میں آ کر مارے گئے۔ شہادت کی تصدیق بلند آواز میں یہ کہ کر کی گئی کے کھیل ختم ہو گیا . پھر وہ فرار ہو گئے۔ سانس ابھی باقی تھی لیکن کاکا مراد صرف پچاس میل دور ہسپتال تک نہ پہنچ پایا ۔ طالبان نے اس قتل سے لا تعلقی کا اعلان کیا. الزام آئ ایس آئ کی پراکسی پر لگا مگر ثبوت کے بغیر . کھیل آخر تھا کیا؟ انیس سو چوراسی میں یہ جاپانی رضا کار ڈاکٹر پہلی بار پشاور کے ہسپتال میں افغان المیے سے متعارف ہوا تھا ۔ ارادہ تو چھ سات سال خدمت انجام دے کر وطن واپس لوٹ جانا تھا لیکن دکھ کا رشتہ بھلا کب آسانی سے ٹوٹتا ہے۔ اگلے کئی برسوں میں افغانستان میں تین جگہ طبی مراکز قائم کر کے اور شبانہ روز کی محنت سے تھک ہار کر اس نے یہ سچ تسلیم کیا کہ بنیادی مسلہ امراض نہیں غذائی قلت ہے ۔ اس نے اپنا سفید کوٹ تہ کر کے ایک طرف رکھا اور مٹیالی صدری پہن کر اپنے زراعتی ماہر دوست کازويا ایٹو کا شریک کار بن گیا جو دریائے کنر سے نہریں نکال کر مشرقی افغانستان کی قحط زدہ بستیوں میں زراعتی انقلاب لانے کے خواب کو اپنا مشن بنائے ہوئے تھا۔ دو ہزار آٹھ میں کازویا کو طالبان نے پہلے اغوا کیا اورپھر تشدد کرکے مارڈالا۔ کاکا مراد سہما نہیں۔ دیوانے کی دیوانگی اور بڑھ گئی۔ ویسے بھی وہ موت کو کئی بار بہت قریب سے دیکھ چکا تھا۔ ایک بار امریکی گن شپ ہیلی کاپٹر سے ہوتی فائرنگ سے بال بال بچتے ہوئے اور پھر دریائے کنر کے سیلاب میں گھرے مظلوموں کی جان بچاتے تقریباً ڈوبتے ہوئے۔ كازویا کی جگہ کمان سنبھال کر وہ اپنے کھیل میں مصروف رہا. ننگرہار صوبے کے کھییوا ڈسٹرکٹ میں بغیر کسی جدید ٹیکنولوجی کی مدد کے مقامی لوگوں کی شبانہ روز محنت سے اس نے کنر دریا سے پچیس کلومیٹر لمبی نہر نکالی اور چھے لاکھ غریب افغانی خوش حال دہقان بن گئے ۔ کنر دریا پر چھوٹے بڑے گیارہ ڈیم تعمیر کیے اور سولہ ہزار ہیکٹر زمین سیراب ہو گئی ۔ جلال آباد کے نواح میں گھمبیری کے علاقے کو سرسبز جنگل اور لہلہاتی فصلوں میں تبدیل کر دیا۔ وہاں دو ہسپتال اور دو مسجدیں بھی تعمیر کروائیں۔ وہ کہتا تھا افغانستان کا حل اسلحہ نہیں زراعتی انقلاب ہے۔ ایک نہر سو ڈاکٹروں کے کام سے بہتر ہے۔ ان خدمات کو عالمی پذیرائی ملی اور اسے رامون مگسے سے ایوارڈ سے نوازا گیا جو ایشیا کا نوبل امن انعام کہلاتا ہے. اس کا سب سے بڑا انعام تو یہ تھا کہ افغانستان کی پنجر زمین اور مظلوم عوام اس کی سخاوت اور فكوکا کے خوبصورت مرغزار اس کی انسان دوستی کا احترام کرتے تھے . فکوکا میں ہونے والی آخری رسومات میں تیرہ ہزار لوگ شامل تھے۔ افغان پرچم میں لپٹے جسد خاکی کے سامنے آویزاں کاکا مراد کی تصویر کے ساتھ ان بے گناہوں کی تصویر بھی تھی جو اس کے ساتھ شہید ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مسکراتے ہوے کہ رہا ہو۔ کھیل ابھی جاری ہے میرے دوست. ٹیٹیسو ناکا مورا کی تدفین کے موقع پراس کے ادارے پیشاور کائی نے اعلان کیا ہے کہ اس کے تمام منصوبوں پر کام جاری رہے گا…. جاری ہے