Skip to content
Home » Blog » ڈھاکہ

ڈھاکہ

  • by

ڈھاکہ

دوسری قسط

شار ق علی
ویلیو ورسٹی

A Glimpse of the City of Dhaka in 2011 During the Cricket World Cup Jointly Hosted by India, Sri Lanka, and Bangladesh

جہاز اب ڈھاکہ کے گنجان شہری علاقوں کے اوپر چکر کاٹتے ہوئے بلندی کھوتا ہوا شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے کی جانب دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر ایک نگاہ ڈالی تو اس بیک وقت شناسا اور اجنبی شہر کی ماضی اور حال سے جڑی بے شمار یادیں ملی جلی کیفیت بن کر دل و دماغ سے گزریں۔ انگنت رہائشی اور تجارتی عمارتوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا ہمارا جہاز ایرپورٹ کے مضافاتی سبزہ زار کے اوپر سے گزرتا ہوا شاہ جلال ایرپورٹ کے رن وے پر آہستگی سے اتر گیا۔

ہم جہاز کی سیڑھیاں اتر کر پہلے سے منتظر مسافر بس میں بیٹھے اور انٹرنیشنل ارائیول کے مرکزی ہال تک پہنچے۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا، اور لاونج کے ہر گوشے میں مغرب کی اذان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ یہ میرا 2007 سے اب تک بنگلہ دیش کا تیسرا دورہ تھا۔ اس سال کرکٹ ورلڈ کپ بھارت، سری لنکا، اور بنگلہ دیش میں مشترکہ طور پر منعقد ہو رہا تھا۔ پچھلے دوروں کے مقابلے میں اس بار ایرپورٹ کی رینوویشن اور ورلڈ کپ کے استقبال کے حوالے سے کی گئی سجاوٹ بہت نمایاں نظر آ رہی تھی۔

یہ آراستگی بہت بھلی معلوم ہوئی اور ایسا لگا کہ ایرپورٹ کی بحالی مکمل طور پر ہو چکی ہے۔ روتھ کے فطری ذمے دار رویے کی بحالی بھی واضح تھی۔ اس نے ہم تینوں کے پاسپورٹس ہاتھ میں تھامے اور انٹرنیشنل گروپ کی قطار میں جا کھڑی ہوئی۔ اس قطار میں ہمارے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا۔ ایک باریش اور ادھیڑ عمر باوردی امیگریشن آفیسر نے پہلے روتھ کو مسکرا کر اور پس منظر میں کھڑے ہم دونوں کو سنجیدگی سے دیکھا۔ اس نے روتھ سے کچھ بے ضرر سے سوالات دوستانہ انداز میں کیے اور یوں ویزا آن ارائیول کا مرحلہ بخوبی طے پا گیا۔

ہم نے سامان سمیٹا اور کسٹم کے گرین چینل سے گزر کر باہر آئے تو ایک جم غفیر کو آنے والے مسافروں کے استقبال کے لیے موجود پایا۔ ایک بڑا سا پلے کارڈ تھامے ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن کے میزبان مینیجر اور ڈرائیور کو ڈھونڈنا ہمارے لیے آسان ثابت ہوا۔ کشادہ سی سیون سیٹر گاڑی کی ڈِکی میں سامان رکھ کر ہم ایرپورٹ کی مرکزی سڑک سے ڈھاکہ شہر کے علاقے گلشن کی سمت روانہ ہوئے۔

مرکزی شہر کی سڑکوں پر آفس ٹائم ختم ہونے کے باوجود ٹریفک کا خاصا رش تھا۔ اس کی وجہ نہ صرف شہر کی ایک کروڑ ستر لاکھ کی آبادی تھی بلکہ ٹریفک کی بد نظمی بھی۔ مرکزی سڑکوں پر سائیکل رکشے اور سامان سے لدی ہاتھ گاڑیاں تیز رفتار ٹریفک کو آگے بڑھنے نہیں دیتی تھیں۔ ہر جانب سے موٹر سائیکلوں کی یلغار اور ہارنوں کا شور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ سڑکوں کے کنارے لگے بینرز اور ہورڈنگز بنگلہ دیشی عوام کی کرکٹ سے بے پناہ عقیدت کا مظہر تھے۔

ٹریفک کی وجہ سے کبھی کبھی ہماری وین بیچ بازار میں رک جاتی اور ہم ادھر ادھر نظر دوڑاتے تو کہیں نہ کہیں چاے کا ڈھابہ ضرور نظر آتا۔ پچھلے قیام کے تجربے سے معلوم تھا کہ یہاں کے اکثر لوگ کم دودھ اور زیادہ چینی کے شوقین ہیں۔ گنجان محلوں کے بیچ گزرتے ہوئے مسجدوں کے گنبد اور مینار اکثر نظر سے گزرتے۔ کراچی سے مختلف بات یہاں سائیکل رکشوں کی موجودگی اور دکانوں کے ناموں کا اردو کی بجائے بنگالی میں ہونا تھا۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم گولڈن ڈیر ہوٹل پہنچے۔ یہ وہی ہوٹل ہے جہاں ہم ہمیشہ ڈھاکہ آنے پر قیام کرتے ہیں۔ یہ تین ستاروں والا آرام دہ اور مناسب سہولیات سے آراستہ ہوٹل ہے۔ یہ ایک مردہ جھیل کے کنارے پر واقع ہے، غالباً اس جھیل کا نام بانانی جھیل ہے۔ جھیل کے دوسرے کنارے پر واقع جھگیاں دلکش نہیں بلکہ دکھ بھرا منظر پیش کرتی ہیں۔ غربت کی ایسی علامتیں بنگلہ دیش میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔….. جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *