The Upper Duden Waterfalls in Antalya is a series of small cascades in a tranquil park. The most exciting experience is to go down the spiral staircase that leads into a cave behind the waterfalls. Fabulous views through a curtain of falling water
ڈوڈن آبشار ، سیج یونیورسٹی ، انشے سیریل ، اننچاسواں انشا ، شارق علی
سیمینار کی تھکن مٹانے کے لئے ہم پروفیسر گل کے لان میں بیٹھے چاے پی رہے تھے. ترکی کے شہر انطالیہ کا ذکر چل نکلا. سوفی بولی . آخر ایسی کونسی خاص بات ہے اس شہر میں ؟ پروف نے کہا . سر سبز پہاڑیوں سے پھوٹتے جھرنے ہوں یا پرسکون میلوں تک پھیلے بلیو فلیگ محفوظ ساحل سمندر. کونیاٹی کے ساحل سے طورس پہاڑیوں کا حسین نظارہ ہو یا چائمیرا کی ساحلی چٹانوں میں مسلسل جلتے اللاؤ کا جادو، جو رات ہونے پر قدیم زمانوں سے بحری جہازوں کو قدرتی لائٹ ہاؤسز جیسی رہنمائی فراہم کرتے ہیں. بارونق بازاروں کی ہنستی مسکراتی چہل پہل ہو یا پھولوں سے سجے ریستورانوں میں خوش رنگ اور مزے دار کھانوں کی بہار. یا پھر تاریخی عمارتوں کے جھروکوں سے جھانکتا شاندار ماضی ، ترکی کا شہر آنطالیہ تمہیں مسحورکر دے گا . ہر رنگ خوبصورت ، ہر ادا دلنشیں . فوجی اور تجارتی اعتبار سے اہم قدرتی بندرگاہ جو رومن عروج سے مہم جوؤں کی آرزو رہا ہے. اس کا ماضی جنگوں سے بھرپور اور حال بے حد پرسکون ہے . سال بھر چمکتی دھوپ میں میلوں پھیلے ساحلوں پر سیاحوں کے لئے ہر آسائش موجود.. روک کلائمبنگ یا محض بازاروں اور تاریخی عمارتوں کی سیر، یہ شہر کسی کو مایوس نہیں کرتا . ڈودڈن آبشار بھی دیکھا آپ نے؟ رمز نے پوچھا . بولے . ٹیکسی لے کر شہر کے مرکز سے کوئی دس میل دور ڈوڈن نامی علاقے میں بھی جانا ہوا . آہنی جنگلے کی چاردیواری سے گھرا پہلے تو یہ ایک عام سا پارک لگا. مرکزی دروازے سے جڑا ٹکٹ گھر، آئسکریم اور بھٹے بیچنے والوں کے کھوکھے اوراندر جاتے سیاح اور مقامی خاندان جن میں اکثریت بچوں کی تھی .داخلہ ٹکٹ توقع سے بہت کم تھا. بھٹوں اور آئیسکریم سے لیس اندر داخل ہوئے تو سب سے پہلے نگاہ سیاحوں کی دلچسپی سے بھری دکانوں پر پڑی . کھانے پینے کے اسٹال بھی پاس ہی. پہلے ایک بہتا ہوا جھرنا نظر آیا. کچھ ہی فاصلے پر ایک اور . پھر یہ جھرنے مل کر ایک ندی کی صورت بہتے اور آگے بڑھتے ہوے . ان بہتی ندیوں میں سے ایک کے ساتھ ساتھ نیچے جاتی سیڑھیاں دکھائی دیں جو ایک تاریک دروازے سے گزر کر سطح زمین سے مزید نیچے جا رہی تھیں. سیڑھیاں اترے تو نیچے ایک بڑے سے گنبد نما غار میں جا پوھنچے. ایک بڑا سا کمرہ نما غار جس کی دیواریں قدرتی چٹانوں سے بنی ہوئی تھیں. ایک جانب ٹوٹی چٹانوں میں قدرتی طور پر بنی کھڑکی تھی جس میں جنگلا لگا تھا . باہر نظر آتا منظر شاید ہزاروں سال پرانا تھا . بالکل ویسا ہی جیسا کہ اس غار میں بسنے والے قدیم انسان دیکھتے ہوں گے . فضا میں ٹھنڈک اور نمی کا احساس تھا . اور مسلسل گرتی آبشار کا شور . مزید سیڑدھیاں اتر کر غار سے باہر نکلے تو ہم ایک تیز بہتے دریا کے کنارے کھڑے تھے جو خاصی بلندی سے گرتے جھرنوں سے بنی حیران کر دینے والی آبشار کے بہاؤ کے مسلسل تلاطم سے بےچین تھا . فضا میں اڑتی بوندیں نظارہ کرنے والوں کو شرابور کر رہی تھیں. بات سمجھ میں آنے لگی کہ قدیم لوگ پہلے پہل غاروں میں کیوں آباد ہوئے ہوں گے . گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں نسبتا آرام دہ قدرتی رہائش کا انتظام . بیشتر وقت تو شکار اور پھلوں کی تلاش میں باہر گزرتا ہو گا لیکن ایسے رہائشی غار سامان کو محفوظ اور ذخیرہ رکھنے اور بارشوں اور حملوں سے محفوظ رکھتے ہوں گے . جھرنوں کی صورت پینے کے پانی کی موجودگی اور پھل دار درختوں اور زرخیز زمین کی آسانی علحدہ . گویا رہائش بھی اور محفوظ جنگی قلع بھی . نجانے قدیم انسان کے شب و روز کیسے ہوں گے؟ میں نے سوچ میں گم پوچھا . پروف بولے. سائنسدانوں کی دریافتوں سے ہم ایک اندازہ سا لگا سکتے ہیں کہ لاکھوں سال پہلے ہمارے آباؤ و اجداد یعنی قدیم انسان اپنی زندگی کیسے گذارتے ہوں گے . اولین قدیم انسان نے تقریباً دس لاکھ سال پہلے افریقہ سے ایشیا اور یورپ کی جانب ہجرت کرنا شروع کی تھی . یہ وہ دور تھا جب بہت کم خوبیاں ہمیں جانوروں سے مختلف بناتی تھیں. دو پیروں پر چلنا، پتھر تراش کر اوزاربنانا اور قدرتی عناصر جیسے آگ کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا .تقریباً اسی ہزار سال پہلے یہ ہجرت ایک حد تک اپنے اختتام کو پوھنچی تھی . وہ باقاعدہ آباد ہونے لگے تھے . پہلے پہل کے ملبوسات جانوروں کی کھالوں سے بنے. مختلف غذائیں کھانے کی وجہ سے انسانی ارتقاء میں انقلابی تبدیلیاں ممکن ہوئیں. پہلے پہل جو زبان بولی گئی وہ الفاظ پر مشتمل نہ تھی. بلکہ جانوروں کے سے انداز میں مختلف آوازیں جو طرح طرح کے جذبات مثلا خوف، غصہ. محبت وغیرہ کی ترجمانی کرتی تھیں، پر مشتمل تھی. الفاظ پر مشتمل زبان جس نے ثقافتی انقلاب برپا کیا چند ہزار سال سے زیادہ پرانی بات نہیں —– جاری ہے ، ویلیوورسٹی ، شارق علی