Skip to content
Home » Blog » ڈاکٹر رشید جہاں: اردو کی ممتاز مزاحمتی نثرنگار

ڈاکٹر رشید جہاں: اردو کی ممتاز مزاحمتی نثرنگار

  • by

تحقیق و تدوین

شارق علی
ویلیوورسٹی

ڈاکٹر رشید جہاں (1905ء-1952ء) اردو کی پہلی خاتون افسانہ نگار، ترقی پسند مصنفہ اور سماجی اصلاح کی علمبردار تھیں، جنہوں نے اردو ادب میں خواتین کی آواز کو طاقتور بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا تعلق علی گڑھ کے ایک روشن خیال اور تعلیم یافتہ خاندان سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ نے خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ویمن کالج قائم کیا، جب کہ ان کی والدہ وحید شاہجہاں بیگم نے خواتین میں شعور پیدا کرنے کے لیے “خاتون” نامی رسالہ جاری کیا۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

رشید جہاں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ اور لکھنؤ میں حاصل کی۔ بعد ازاں دہلی کے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کیا اور 1934ء میں بطور ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ اسی سال ان کی شادی اردو کے معروف ادیب محمود الظفر سے ہوئی، جو خود بھی ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن تھے۔

ترقی پسند تحریک میں شمولیت

رشید جہاں ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی بانی اراکین میں شامل تھیں۔ 1936ء میں لکھنؤ میں ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں ان کی شرکت اس تحریک کے ساتھ ان کی وابستگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ وہ سماجی ناانصافی، صنفی مساوات، اور خواتین کی حالتِ زار جیسے موضوعات پر کھل کر لکھتی تھیں۔ ان کا شمار انڈین پیپلز تھیٹر (اپٹا) کے بانی ارکان میں بھی ہوتا ہے، جہاں انہوں نے سماجی شعور اجاگر کرنے والے ڈرامے تخلیق کیے۔

ادبی خدمات

رشید جہاں پہلی بار 1932ء میں افسانوی مجموعے “انگارے” کی اشاعت کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔ اس کتاب میں شامل ان کے افسانے اور ڈرامے معاشرتی برائیوں پر کاری ضرب تھے، جنہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور برطانوی حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ بعد میں ان کا افسانوی مجموعہ “عورت اور دوسرے افسانے” 1937ء میں شائع ہوا، جو خواتین کے مسائل اور ان کے جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ان کے دیگر مشہور مجموعے “شعلۂ جوالہ” اور “وہ اور دوسرے افسانے” ہیں، جنہوں نے اردو ادب میں خواتین کے نقطہ نظر کو مضبوطی سے اجاگر کیا۔

وفات اور یادگار

رشید جہاں کو 1952ء میں کینسر کے علاج کے لیے ماسکو لے جایا گیا، جہاں وہ 29 جولائی کو انتقال کر گئیں۔ ان کی زندگی اور خدمات اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، کیونکہ انہوں نے ادب کو محض تفریح کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے معاشرتی اصلاح کا آلہ بنایا۔

ڈاکٹر رشید جہاں ایک مشعل راہ تھیں، جنہوں نے نہ صرف خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ اردو ادب کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرایا۔ ان کا نام ترقی پسند تحریک کے روشن ستاروں میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *