Named after an outspoken poet, this centrally placed largest park in Amsterdam welcomes about 10 million visitors each year
وونڈل پارک ، آٹھواں انشا ، ، ہوف ڈورپ میں چار دن ، انشے سفرنامہ ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
ٹھیک کہا آپ نے ، ٹریول کارڈ زیادہ استعمال نہ کیا تو پیسے وصول نہ ہوں گے . چلیے اس سامنے کھڑی ٹرام میں جس کے ماتھے پر وونڈل پارک لکھا ہے سوار ہو جاتے ہیں . ایمسٹرڈیم کا سب سے بڑا ، مشہور اورخوبصورت پارک . یوں تو آٹھ لاکھ آبادی کے اس شہر میں تیس سے زیادہ پارک ہیں لیکن وونڈل پارک اپنی مثال آپ ہے . چلتی ٹرام کی کشادہ کھڑکیوں سے بارونق سڑکوں کے منظر بھی خوب تھے . ٹرام سے اترنے کے بعد دس منٹ کا پیدل راستہ ہے پارک کے مرکزی گیٹ تک . چلیے گوگل میپ فون پر لئے آپ آگے اور میں پیچھے . ارد گرد قرینے سے بنے مکانات اور پھولوں بھری کیاریوں کے سامنے فٹ پاتھ پر چلنا بہت خوشگوار ہے . وہ دیکھیے سڑک کے کنارے قطار سے کھڑی کاروں کے پیٹرول بھرنے کی کھڑکی سے جڑے پلگس اور تار جو فٹ پاتھ کے ساتھ بنے پوسٹ باکس سے ملتے جلتے چارجنگ سٹیشنوں سے بجلی حاصل کر رہے ہیں . بجلی کی کاروں کا استعمال پورے یورپ میں بڑھ رہا ہے. رات بھر چارج ہو کر یہ کئی دنوں کے استعمال کے قابل ہو جائیں گی . نہ شور نہ دھواں . کم خرچ بالا نشین . لیجیے ہم پارک کے مرکزی گیٹ تک پوھنچ گئے . لوہے کے جنگلے سے بندھی سایکلوں کی تعداد تو ذرا دیکھیے . آج جیسی نکھری دھوپ نکلی ہو تو بہت سے لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں . یہ جو خوش اندام اور کم لباس گوری میمیں آپ کو اس پارک میں کثرت سے نظر آ رہی ہیں اور جن میں آپ لا شعوری طور ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں ان کی یہاں آمد کی وجہ واللہ آپ نہیں سورج ہے . یہ حسینائیں جھیل کنارے پارک کے سبزہ زار میں دھوپ تلے لیٹ کر جلد سنولانے کے لئے یہاں آئ ہیں .آپ اپنی توجہ چہل قدمی کرتے یا کتے ٹہلاتے بوڑھوں ، جاگنگ کرتے نوجوانوں یا سامنے کیفے میں چاے ، کوفی یا مسلم ممنوع مشروبات کا گلاس تھامے بھانت بھانت کے سیاحوں پربھی کر سکتے ہیں . چھوٹی سی مصنوعی جھیل عبور کرتے لکڑی کے تختوں سے بنے پل پر بکھرے بے شمار پیلے پتوں کا حسن تو ذرا دیکھیے . جا بجا لگے خوبصورت اور نایاب درختوں کا بھی جواب نہیں. وہ دیکھیے پیدل گزرگاہوں کے پاس سرخ پھولوں سے ڈھکی دائرہ وار کیاریوں کے بیچ ایک بڑا سا سنگی مجسمہ. یہ ہے جوسٹ وین ڈن وونڈل . یہ پارک اسی کے نام منسوب ہے. پیدا تو وہ سن پندرہ سو ستاسی میں جرمنی کے شہر کولون میں ہوا تھا لیکن مذہبی منافرت کے شکار ہو کر اس کے خاندان کو ہجرت کر کے ایمسٹرڈیم میں مستقل آباد ہونا پڑا . اس کے والد یہاں ہوزری کا کامیاب کاروبار جمانے میں کامیاب ہو گئے تھے . والد کی خواہش تو یہ تھی کے وہ کاروبار میں ہاتھ بٹاے لیکن وہ نوعمری ہی سے ایمسٹرڈیم کے شاعروں اور لکھاریوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا . حلقے کا نام تھا وائٹ لیونڈرز ۔ یہاں اسے بہت سے مایاناز لکھاریوں سے ملنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا . پھر وہ شاعری اور ڈرامہ نویسی کی سمت چل نکلا. والد کی وفات کے بعد اس نے اپنی محبوبہ ماریہ سے شادی کی جس نے بخوبی کاروبار سنبھالا. یہ محبت اور رفاقت پچیس سال تک قائم رہی . روز مرہ کی ذمہ داریوں سے بے نیاز وہ اپنے فن کی طرف متوجہ رہا. اس نے جرمن ادب پاروں کو ولندیزی میں ترجمہ کر کے ادبی صلاحیت میں اضافہ کیا . پہلا ڈرامہ سولہ سو دس میں لکھا جو دو سال بعد سٹیج ہوا . بنیادی خیال ہجرت کا غم تھا . اس نے یہودیوں کی مصر سے ہجرت کے پس منظر میں اس انسانی المیے کو بیان کیا. دھیرے دھیرے تحریروں میں صاحب اقتدار طبقے کے خلاف بغاوت کا رنگ غالب آتا چلا گیا. سولہ سو پچیس میں ایک باغیانہ ڈرامہ اسٹیج کیا تو بہت سیاسی ہلچل مچی اور اسے روپوش ہونا پڑا . وہ ہالینڈ بلکہ پورے یورپ میں باغی لکھاری کے طور پر مشہور ہوا . مقدمہ چلا لیکن مہربان مجسٹریٹ نے صرف مالی جرمانہ عائد کر کے رہا کر دیا . اس کی بیوی اور دو بچوں کا انتقال ہوا تو اس نے اپنی شاہکار المیہ نظمیں لکھیں . مذہبی جبر کے خلاف لکھی گئی اس کی باغیانہ نظمیں اور ڈرامے آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ………….. جاری ہے