مے فلاور ، پندرھرواں انشا ، امریگو کہانی ، انشے سیریل ، ویلپوورسٹی، شارق علی
ہم چاروں گھر کے پیچھے بنے اس کشادہ لان کی چہل قدمی میں مصروف اور بچوں کی طرح خوش تھے. کچھ ایسا جوش و خروش جو شاید اولین مہم جو ایمیزون کے گھنے جنگلوں کی سیر کے دوران محسوس کرتے ہوں . قرینے سے نگہداشت کیے لان میں ایک طرف گھر کی دیواروں کے ساتھ لگی پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ اور لان کے دوسری جانب سبز پتوں سے ڈھکے لہلہاتے چند اونچے درخت. ہم نے گملوں میں لگے پودینے کے گھنے جنگلوں کو بچوں جیسی حیرانگی سے دیکھا۔ فالسے کے نوعمر پودے کی نرم شاخوں کو عقیدت سے چھوا کیونکہ کراچی کے کالے کالے فالسے یاد کرکے ہم آبدیدہ ہو گئے تھے ۔ وطن سے ہجرت کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتی۔ مے فلاور کے زائرین کے لیے تو یہ مرحلہ بہت مشکل تھا۔ مے فلاورایک بحری جہاز تھا جو سولہ ستمبر سولہ سو بیس کو برطانیہ کے شہر پلی متھ سے امریکہ کے لیے روانہ ہوا تھا ۔ اس میں ایک سو دو مسافر اور عملے کے تیس افراد سوار تھے۔ مرد ، عورت ، بچے اور بوڑھے۔ یہ لوگ برطانیہ میں اس وقت موجود مذہبی تنگ نظری سے تنگ آ کر فکری آزادی اور معاشی خوشحالی کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ رہے تھے۔ آزاد فکر اور روشن خیالی کے ان متلاشی مسافروں کو آج تقریبآ تین کروڑ سے زیادہ امریکی اپنا آباؤ اجداد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ فکری آزادی اور خوشحالی کی جانب ایک مشکل سفر کے مسافر تھے. ۔ مے فلاور کے مسافر جو پیوریٹان اور پلگرمز بھی کہلاتے ہیں نئی دنیا دریافت کرنے، پیسہ کمانے، زمین کا مالک بننے اور خوشحال زندگی کے لیے امریکہ آئے تھے. لان کی سیر کے دوران ہم نے پنجرے میں پھنسے لزرڈ کی لاش کا ہولناک منظر بھی دیکھا ۔ سلیم نے بتایا کہ ورجینیا میں ایسے لزرڈ کثرت سے پاے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے گھروں میں ایسے ظالمانہ پنجرے بھی۔ پھر ہم نے سبز پتوں میں چھپم چھپای کھیلتی گہرے رنگ کی تیار بلو بیریز کو توڑ کر شیشے کے گلاسوں میں جمع کرنا شروع کیا. یہ شغل آسان تھا لیکن اس دوران ہم اپنے دلوں میں موجود بچوں جیسی مسرت سے ملے۔ پھر ہم نے سبز لان اور دلکش درختوں کو الوداع کہا اور لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر ڈیک پر بنے کمرے میں جا پہونچے۔ یوں تو خاطر داری کے بہت سے لوازمات میز پر رکھے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن جو مزا تازہ توڑی ہوی بلو بیریز نے دیا وہ بے مثل تھا. یہ ڈیک جہاں ہم بیٹھے تھے بہت کشادہ تھا اور نہایت آرام دہ . مے فلاور نامی بحری جہاز کے مسافروں کو چھوٹے سے ڈیک میں گھسا دیا گیا تھا۔ یہ سفر ان کے لئے بہت دشوار تھا . سترھویں صدی میں انگلینڈ میں مذہبی جبر سے تنگ آ کر بہت سے آزاد خیال لوگ نیدرلینڈز بھاگ گئے تھے، جہاں قوانین زیادہ لچکدار تھے۔ مے فلاور نامی بحری جہاز پر سوار ان خاندانوں نے فکری آزادی کے لیے بحر اوقیانوس کے اس پار امریکا پوھونچنے کے اس انقلاب آفریں سفر کا فیصلہ کیا تھا. بحری جہاز پر کوئی غسل خانہ، نلکوں میں آتا پانی یا تازہ ہوا مہیا نہیں تھی۔ سارا ماحول بدبودار تھا۔ جب موسم خراب ہوتا تو وہ لہروں کی زد میں آکر یہ سوچتے تھے کہ کیا جہاز طوفان سے گزر بھی پاے گا یا نہیں۔ پلئی متھ سے میساچوسٹس تک کا یہ سفر امریکی تاریخ کا ایک انقلاب آفریں سفر تھا۔…. جاری ہے