Dutch explorer Abel Tasman expeditions led him to remote places such as Tasmania, New Zealand and more
مہم جو ، نواں انشا ، ہوف ڈورپ میں چار دن ، انشے سفرنامہ ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
ایمسٹرڈیم سینٹرل سے واپسی تک رات گہری ہو چلی تھی . ہوٹل پوھنچے تو تھکن اتنی زیادہ تھی کہ بغیر کچھ کہے سنے سو گئے. اگلے دن آنکھ کھلی تو دن چڑھ چکا تھا. نہا دھو کر تیار ہوئے. ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور ہوف ڈورپ سینٹرم کی سیر کا ارادہ لیے ہوٹل سے نکلے. بل کھاتی فٹ پاتھ پر چلتے ہوے ہائی وے کے نیچے سے گزرتی پیدل انڈر پاس سرنگ سے گزر کر میٹرو بس کے قریبی اسٹاپ پر پوھنچے . پانچ منٹ بعد لمبی سی میٹرو بس آ کر رکی تو ٹریول کارڈ پینل پر ٹچ کر کے سوار ہوے. . راستے بھر کھڑکیوں سے اعلی درجے کے رہائشی مکانات نظر آتے رہے . سامنے دلکش لان اور پھولوں سے لدی کیاریاں. مرکزی چوک کے بیچ میں پانی سے بھرا نیلا حوض جسے ہر سمت سے جھکتے اور جلترنگ بجاتے فوارے مسلسل متلاطم رکھے ہوے تھے . جدید سڑکیں، سرخ سایکل ٹریک اور فٹ پاتھ کے ساتھ لگے یکساں قامت اور تروتازہ درخت . کچھ قدرتی جھیلیں اور بیشتر تعمیر کی گئی نہریں . یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ہوف ڈورپ کا یہ سارا علاقہ سو ڈیڑھ سو سال پہلے زیر آب تھا . ساحلی پشتے یا ڈایکس تعمیر کر کے پانی پیچھے دھکیلا گیا تو یہ جھاڑیوں سے ڈھکا کیچڑ بھرا میدان بن گیا . پھر مسلسل چلتی پن چکیوں اور اب ماڈرن انجینیرنگ نظام سے نہروں کے ذریعے نکاسی آب مسلسل قائم رکھ کر اس سارے علاقے کو خشک کیا گیا تو یہ زرخیز زمین بن کر رہائش اور زراعت کے قابل بن سکا . جب ملک کا ایک تہائی حصّہ سمندر سے نیچے ہو تو ملک کی بقا اور خوش حالی کے لئے ایسے ہی جذبے اور انجینیرنگ کی ایسی مہارت درکار ہوتی ہے . یہ بہادر قوم ایک ایک میٹر زمین کے لئے سمندر سے لڑتی ہے .دور اندیش اتنی کہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی سے کمایا ہوا بیشتر سرمایا ایسے ہی ڈائیکس کی تعمیر پر خرچ کیا گیا اور یوں ہالینڈ کو ایک زرخیزاور خوش حال ملک کی شاخت ملی . کوئی پانچ سٹاپ گزرے ہوں گے کے ہوف ڈورپ سینٹرم آ گیا . اسٹاپ پر اترتے ہی مشہور مقامی گروسری اسٹور ڈرک کا دروازہ وہ دیکھیے بالکل سامنے . کیا خیال ہے کچھ تازہ پھل اور خشک میوے نہ خرید لئے جائیں . کس قدر با رونق اور بھرا پرا اسٹور ہے یہ . تمام چیزوں خاص طور پر پھلوں کا معیار تو ذرا دیکھیے . جی خوش ہو گیا . اچھا کیا آپ نے یہ تازہ آڑو، سیب اور چیریز خرید کر . اگلے دن کے ناشتے کے لئے کروزوں، اخروٹ اور فلیورڈ دہی کا انتخاب بھی کر لیجیے . چلیے آپ نہ تھامیے گا میں یہ شاپنگ بیگ ھاتھ میں تھامے ہوف ڈورپ کی سیر کر لوں گا . مجھے بھی ایبل تسمان جیسا مہم جو سمجھ لیجیے کچھ دیر کے لئے . کیا کہا آپ واقف نہیں ان صاحب سے . چلیے تعارف میں کروانے دیتا ہوں . وہ سولہ سو تین میں ہالینڈ میں پیدا ہوا تھا . جوان ہوا تو ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کی . ترقی کرتے کرتے بحری کمانڈر بن گیا. سولہ سو بیالیس میں ایک مہم کا سربراہ بنایا گیا جس کا مقصد مشرق اور جنوب میں نا معلوم دنیاوں کی تلاش تھی. اس بحری مہم کے لیے اسے دو چھوٹے بحری جہاز دیے گئے. وہ انڈونیشیا کی بندرگاہ بٹاؤیہ جو آج کل جکارتہ کہلاتا ہے، سے اس مہم کے لیے ساتھیوں سمیت روانہ ہوا . مشرق کی طرف مسلسل سمندری سفر کرتے ہوئے وہ انجانے زمینی کنارے تک پوھنچے جس پر بلند و بالا پہاڑ تھے . آسٹریلیا کے نزدیک یہ جزیرہ آج تسمان کی نسبت سے تسمانیہ کہلاتا ہے. پھر وہ سمندر میں مزید آگے بڑھتے ہوے بالآخر نیوزی لینڈ کے دونوں جزیروں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے. نیوزی لینڈ پر تسمان کی یہ مہم جوئی ماوری اور یورپی تہذیبوں کے آمنے سامنے آنے کی کہانی ہے. بدقسمتی سے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والی یہ تہذیبیں بلاخر تصادم اور تشدد کے راستے پر چل نکلیں تھیں . تو گویا دلچسپ لگا آپ کو یہ تعارف. چلیے ہم اور آپ بھی شاپنگ کے ساتھ صحتمند لنچ کے لئے اچھے سے ریسٹورنٹ کی تلاش کی مہم کا آغاز کرتے ہیں …………… جاری ہے