Cultural and economic globalization seems imminent. It results in a fair or even more unfair divide between people and countries is yet to be seen.
مرکزی کیمبرج کی مصروف سڑک کے فٹ پاتھ پر خوب چہل پہل تھی . ہم لنچ کے بعد سو جانے کی شدید خواہش کی حسرت امیز خاموشی اوڑھے آگے پیچھے چل رہے تھے۔ ٹرمپنگٹن اسٹریٹ پر مڑ کر کچھ ہی دور آگے چلے ہوں گے تو فٹزولیم میوزیم کی با رعب عمارت ھمارے سامنے تھی۔ اٹھارہ سو سولہ سے قائم یہ میوزیم عالمی ثقافتی ورثے کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہے. ھم طالب علموں میں اس وجہ سے بے حد مقبول کیونکہ اس میں داخلہ بالکل مفت ہے. پوری دنیا سے جمع شدہ پانچ لاکھ سے زائد نوادرات جو زمانہ قدیم سے لے کر کے آج تک کے موجودہ دور کی عالمی تاریخ اور ثقافت کی بھرپور نمائندگی کرتے ہی. داخلے کی قطار میں کھڑے ہوے تو جیک نے پوچھا. .قدیم انسان کا معاشرتی منظرنامہ کیسا تھا؟. پروف بولے آغاز تو ایک اکائی کی صورت ہی ہوا تھا ۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سال پہلے کے ھمارے جد ہومو سیپینز نے جب افریقہ میں خانہ بدوشی کی زندگی آغاز کی تو معاشی اور ثقافتی رنگا رنگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ تو محض بقا کی جنگ تھی . غذا کی کمی جب ہجرت کی صورت انہیں دوردراز خطوں میں لے گئی تو مختلف انسانی گروہوں کے رہن سہن میں تفریق پیدا ہونی شروع ہوئی. دس ہزار سال پہلے کے زرعی انقلاب کے نتیجے میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا . بیسویں صدی میں وہ اس حد تک بڑھا کہ بعض ملکوں میں انسانی عمر کے مساوی عرصے میں ملک کی آبادی دوگنا ہونے لگی۔ دنیا میں موجود آبادی اور وسائل کا تناسب بگڑنے لگا۔ پھر موسمیاتی تبدیلی نے وسائل میں کمی کا رجحان اختیار کیا تو انسانوں اور ملکوں میں معاشی اور ثقافتی تقسیم واضح ہونے لگی۔ شہروں اور دیہات کی زندگی میں یہ تفریق ابھر کر سامنے آنے لگی.. بیسویں صدی کے آخر میں عالمی تجارت کو آسان بنانے کی غرض سے بہت سے ممالک نے ایک دوسرے کے ملکوں سے تجارتی طور پر آنے والی مصنوعات کے محصولات کو باہمی رضا مندی سے کم کیا تھا ۔ یہ عالمی معیشت کی جانب پہلا قدم تھا. ہم میوزیم میں داخل ہوے تو رش معمول سے کچھ کم تھا . ویسے تو یہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن زن اور اس کی دیکھا دیکھی میری خصوصی توجہ کا مرکز مونے ، وان گوگ ، ریمبراں اور پکاسو کے شاہکار ہوتے ہیں. لیکن اس بار پروف نے ہمیں وین ڈائک اور کینیلیٹو کے کام کی طرف بھی متوجہ کیا۔ ہال سے نکل کر ہم کیفے میں کچھ دیر سستانے کو بیٹھے تو زن نے پوچھا . تو کیا منصفانہ دنیا کا خواب کبھی حقیقت بن سکے گا؟ بولے. آج کی دنیا حیرت انگیز تبدیلی کا دور ہے . ہم سے پہلے کی کسی انسانی نسل نے وقت اور فاصلے کو اتنی تیزی سے سکڑتے نہیں دیکھا ۔ معیشت کے ساتھ اب ثقافتی فاصلے بھی سکڑ رہے ہیں۔ ایک مشترکہ عالمی ثقافت ھماری زندگیوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ کوکا کولا، ٹویوٹا اور ہوواوائی کے استعمال کی طرح ہالی وڈ کی فلمیں اور افریقی موسیقی اب ھم سب کی زندگیوں کا حصہ بنتی چلی جا ریی ہیں. افراد، اشیاء معلومات اور خدمات کا جس تیزرفتاری سے تبادلہ اب ممکن ہے انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ممکن نہ تھا. انٹرنیٹ اور رابطے کی جدید ٹیکنالوجی نے تو سرمائے اور اشیا کی ترسیل کو اس قدر تیز اور آسان بنا دیا ہے کہ ھم سب عملی طور پر ایک معیشتی اکائی بن چکے ہیں . اب تمام قومیں عالمی معیشت کا حصہ شمار ہوتی ہیں۔ آج ہماری عالمی زبان ہندسے ہیں۔ ہم انسان ایک دوسرے کو بات سمجھانے کے لیے حروف سے زیادہ ہندسوں کا استعمال کرتے ہیں. آج دنیا بھر کا نوے فیصد سرمایہ محض الیکٹرانک ڈیٹا ہے اور صرف دس فیصد مادی وجود رکھتا ھے. یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ گلوبلائزیشن مثبت بات ہے یا منفی.. لیکن بلا شبہ ھماری دنیا ایک مشترکہ اکائی بننے کی جانب قدم بڑھا رھی ہے۔ ہم عالمی ثقافت کی سمت بڑھ رہے ہیں. گلوبل مارکیٹ اکانومی، عالمی ماحولیاتی خطرات کا سامنا، اور بین الاقوامی طور پر قبول شدہ بیانیے جیسے عالمی انسانی حقوق کا تصور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آج ہم میں سے بیشتر لوگ پوری دنیا کو ایک اکآئی تصور کرتے ہیں. کیا گلوبلائزیشن منصفانہ دنیا تشکیل دے سکے گی یا بے انصافی میں مزید اضافہ ہو گا یہ بات ابھی واضح نہیں، میوزیم سے باہر نکلتے ہوے ہم سوو ینیر شاپ کے قریب سے گزرے جس میں بھانت بھانت کی بہت سی دلچسپ چیزیں موجود تھیں. ہماری طالب علمانہ تنگدستی نے اس سمت جانے سے گریز کیا۔ غالباً صورتحال بھانپ کر پروف بھی اس سے بے نیاز رھے…. جاری ہے